معزز قارئین!۔ 23 جنوری کو قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے دوسری بار"Mini Budget" کی تقریر تو پڑھ دِی ، آپ نے بھی الیکٹرانک میڈیا پر سُن لی ہوگی ۔ اِس پر کل بات کریں گے ۔ آج تو نہ جانے مجھے کیوں؟ کچھ اور کہنا پڑ رہا ہے ؟۔آج مجھے ’’محبوب ‘‘ کا پنجابی متبادل لفظ ’’ ماہی / ماہِیا ‘‘ کیوں یاد آ رہا ہے ؟ ۔ پنجابی میں ’’ماہی/ ماہِیا ‘‘ کو ’’ڈھول / ڈھولا ‘‘ بھی کہتے ہیں اور جب ڈھول ۔ پولیس یا فوج کا کوئی سپاہی ہو تو، اُسے پنجاب کی الہڑ مٹیاریں ’’ڈھول سپاہیا‘‘ کہہ کر مخاطب یا ، یاد کِیا کرتی ہیں۔1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران پاک فوج کے ، ہر سپاہی کے لئے مرحومہ ، ملکۂ ترنم نور جہاں کا یہ نغمہ بہت مقبول ہُوا تھا ، جِس کا مُکھڑا ( مطلع ) تھا … میریا ڈھول سپاہِیا، تَینوں ربّ دِیاں رکھّاں! تَیتھے ، واری جاوَن ، میرے جئیہاں لَکھّاں ! …O… پنجاب کی ایک الہڑ مٹیارنے اپنے ’’ڈھول سپاہِی ‘‘ کو یاد کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … ڈھول سپاہِیا وَے ، کِتھّے گئیوں ، دِل لا کے؟ میریا ماہِیا ، وَے ، کِتھّے گئیوں ، دِل لا کے؟ …O… نہ جانے کیوں لوگ اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں ؟ اور اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں؟۔ بقول جناب فیض احمد فیضؔ … دُنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا! تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم رُوزگار کے! …O… صدر جنرل ضیاء اُلحق کے دَور میں ایک پولیس کانسٹیبل نے ’’ پیر سپاہی‘‘ کی حیثیت سے بہت شہرت پائی تھی ! ۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ، عوام کے مسیحا کے رُوپ میں ، نمودار ہُوئے تو، اپنی روحانی قوتوں کے باعث اُن کی شخصیت ، رومن ڈکٹیٹر "Julius Caesar" کا یہ قول زندہ کررہی تھی کہ"He Came, He Saw and He Conquered"(یعنی۔ ’’ وہ آیا۔ اُس نے دیکھا اور اُس نے فتح کر لیا)۔ پِیر سپاہی کی زیارت کے لئے لوگ دُور دُور سے آتے اور فیض پاتے تھے۔ اُن کا فیض ’’ فیضِ عام‘‘ بن گیا تھا۔ سُورج کی کِرنوں کی طرح۔ سُورج جو تمام دُنیا کو روشنی اور حرارت بخشتا ہے۔ پِیر سپاہی کا دل بہت وسیع تھا۔ کھُلے سمندر کی طرح۔ ایک وسیع و عریض آسمان کی طرح۔ وہ اپنے عقیدت مندوں پر محبت اور شفقت کی بارش برساتے ، لوگ خالی ہاتھ آتے اور جُھولیاں بھر کر واپس جاتے!۔ ’’پِیر سپاہی‘‘ کے بارے مختلف روایات اور حکایات مشہور ہوئیں۔ کہا جاتا تھا کہ ’’ وہ محکمہ پولیس میں ، سپاہی یعنی کانسٹیبل ہیں لیکن رزقِ حلال کھاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی زبان میں تاثِیر ہے۔‘‘ کسی نے کہا کہ ’’ پِیر سپاہی نے اپنے اعلیٰ افسر کے حُکم پر، ایک بے گناہ شخص کو ’’پولیس مقابلے میں ‘‘ جان سے مارنے سے انکار کر دیا تھا ۔ وہ بے گناہ شخص کوئی’’ پہنچا ہوا بزرگ‘‘ تھا جس نے خوش ہو کر سپاہی کو ’’ رُوحانی قوتیں‘‘ عطا کر کے ’’ پِیر سپاہی‘‘ بنا دِیا اور خدمت خلق کا حُکم دِیا ۔ کسی نے کہا کہ ’’ پِیر سپاہی ، دراصل جنرل ضیاء الحق کا ایجنٹ ہے ، جسے جنرل صاحب نے محض اس وجہ سے مجمع لگانے پر مقرر کیا ہے کہ لوگ سیاسی جلسے اور جلوسوں کی طرف توجہ نہ دیں‘‘ ۔ بہرحال !پیر صاحب جو کچھ بھی تھے اُس کا علم تو عالم اُلغیب ربّ عظیم ہی کو تھا لیکن یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ لوگ ’’ پِیر سپاہی ‘‘ کی طرف پروانہ وار دوڑتے اور اُن کے لئے دیدہ ٔ و دل فرش راہ کئے ریلوے سٹیشنوں اور ائیر پورٹس پر دیر تک انتظار کرتے! ۔ ’پِیر سپاہی ‘‘ مختلف بیماریوں کا علاج کرتے اور ضرورت مندوں کے بگڑے کاموں کو سنوارتے تھے۔ پورے ملک میں اُن کے عقیدت مندوں کا جال پھیلا ہوا تھا اور وہ ’’پِیر سپاہی ‘‘ کی کرامات کے عینی شاہد ہونے کا دعویٰ کرتے ! ۔ اِس طرح پِیر صاحب کا حلقہ ارادت وسیع ہوتا گیا ۔ اُن کے عقیدت مندوں میں عام آدمی، تاجر، وکیل، ڈاکٹر، سرکاری افسر، چھوٹے ملازم، فلم ساز، فلم ایکٹر، سمگلر، سٹّے باز، کن ٹُٹے اور معزز، غرض کہ ہر طبقے کے لوگ تھے ۔ عورتیں، مرد، بوڑھے اور بچے بھی ۔ ’’ پِیر سپاہی‘‘ پانی، دودھ، شہد، تیل اور گھی پر بھی دم کرتے تھے۔ جب وہ ریلوے سٹیشن یا ائیر پورٹ پر برآمد ہوتے تو عقیدت مندوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اُن کے استقبال کے لئے موجود ہوتا ۔ اُن کے ہاتھوں میں ڈھکن کُھلی ، پانی، دودھ، شہد، تیل اور گھی کی بوتلیں ہوتیں۔ ریلوے سٹیشنوں اور ائیر پورٹس پر ،لائوڈ سپیکر کا انتظام ہوتا ’’پِیر سپاہی‘‘ کی برآمدگی کے بعد اُن کا کوئی مُرید خاص اعلان کرتا کہ’’ خواتین و حضرات! اپنی اپنی بوتلوں کے ڈھکّن کھول دیں !‘‘ ۔ پھر عقیدت مندوں کی بوتلوں کے ڈھکّن کھُل جاتے۔’’پِیر سپاہی ‘‘ کچھ پڑھ کر لائوڈ سپیکر پر ’’ چھُو‘‘ کرتے اور عقیدت مند فرطِ عقیدت سے مُنہ سے مختلف قسم کی آوازیں نکالتے۔ بعض موقعوں پر بھگدڑ بھی مچ جاتی۔ ٹریفک میں خلل پڑ جاتا اور پولیس کو لاٹھی چارج بھی کرنا پڑتا۔ کئی بار ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے کہ لاٹھی چارج کرنے والے پولیس کانسٹیبل کے ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے ہاتھ میں بغیر ڈھکن کی بوتل ہوتی کیونکہ وہ بھی ’’پِیر سپاہی ‘‘ کی ’’چھُو‘‘ کا طلب گار ہوتا تھا ۔ پھر یوں ہُوا کہ کلائمیکس پر پہنچ کر ’’پِیر سپاہی ‘‘ غائب ہوگئے۔ کسی نے کہا کہ’’ جنرل ضیاء الحق عُمرے کے لئے اپنے ساتھ لے گئے تھے اور وہیں چھوڑ آئے۔‘‘ کوئی بولا کہ ’’ وہ مخصوص مذہبی جماعتوں کی درخواست پر ، افغان مجاہدین کی جنگِ آزادی کی قیادت کر رہے ہیں اور کابل پر’’ اسلامی جھنڈا‘‘ لہرا کر ہی پاکستان واپس آئیں گے۔‘‘ پھر یہ افواہ عام ہوئی کہ ’’ متحدہ جمعیت اہلحدیث کے اکابرین نے اُنہیں اتحادی فوجوں کی مدد کیلئے افغانستان بھجوا دیا ہے‘‘ لیکن اُس کے ساتھ ہی تردید بھی عام ہوئی کہ ’’کچھ اکابرین‘‘ تو ’’روحانی قوتوں‘‘ کو مانتے ہی نہیں۔ بھلا وہ کیوں بھجوانے لگے’’ پِیر سپاہی‘‘ کو افغانستان کیوں بھجوائیں گے؟۔ معزز قارئین! کل رات علاّمہ طاہر اُلقادری کے لڑکپن کے جھنگوی دوست ’’ بابا ٹلّ‘‘ نے میرے خواب میں آ کر مجھ پر زور دِیا کہ ’’ اِس وقت پاکستان کے بھوکے، ننگے اور بے گھر کو اپنے مسائل حل کرنے کے لئے ’’پِیر سپاہی‘‘ کی اشد ضرورت ہے لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ مَیں نے’’پیر سپاہی‘‘ کو کبھی نہیں دیکھا۔ صِرف اُن کی ’’کرامات‘‘ کے چرچے سُنے تھے ۔ اخبارات میں اُن کی خبریں اور ایک آدھ بار اُن کی تصویر بھی دیکھی تھی ۔ مجھے اُن کی ’’چھُو‘‘ کی کبھی ضرورت نہیں پڑی ۔ مَیں کبھی اُن کا عقیدت مندنہیں رہا ۔ مَیں پاکستان کے عوام کے مفاد کے لئے ’’ بابا ٹل‘‘ کی اِس تجویز کو تسلیم کر کے آج کا کالم لِّکھ رہا ہُوں جو لوگ ’’پِیر سپاہی کی چُھو‘‘ کی آس میں جی رہے ہیں ، مَیں اُن کی آس کیوں توڑوں؟۔ بھوکے ، ننگے اور بے گھر لوگ آئی ۔ایم ۔ایف اور عالمی بینک کی ہدایات اور حکومتِ پاکستان کی ترقی کے اعلانات کی باریکیوں کو نہیں سمجھتے۔ اب تو ، اُن کا حکمرانوں سے یہ مطالبہ ہے کہ… روٹی،کپڑا بھی دے ، مکان بھی دے ! اور مجھے جان کی امان بھی دے ! …O… کم آمدن کے لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے ۔ اُن کے پڑھے لِکھے بیٹے بے روزگار ہیں ۔ وہ شادی کے قابل اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دے سکتے ۔ پارلیمنٹ کے ارکان اور حکومتی افسران اور کارندے پارلیمنٹ میں وزیراعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف اور دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین سے مایوس ہوچکے ہیں ۔ وہ تو مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹویاں مار رہے ہیں ، کیا ’’ پیر سپاہی‘‘ پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام کی امیدوں کا مرکز نہیں بن سکتے؟ لیکن ’’ پِیر سپاہی‘‘ کو سوچنا ہوگا کہ ’’ غریبوں کے پاس تو ڈھکن کھلی ، پِینے کے صاف پانی کی بوتلیں بھی نہیں ہیں ؟۔ معزز قارئین! اگرچہ مَیں "Late" ہوگیا ہُوں لیکن مَیں تو اپنے مرحوم دوست شاعر ،اعزاز احمد آذر ؔکے اِس شعر ہی کو اپنے کالم کی زینت بنا سکتا ہُوں کہ … وہ جِس کے بعد گویا ،زندگی نوحہ سرائی ہے اُسے کہنا کہ بِھیگی ’’جنوری ‘‘پھر لوٹ آئی ہے