مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔ برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل بھی اس حقیقت سے باخبر تھے اسی لئے تو انہوں نے جنگ عظیم میں جب برطانیہ کے شہر کھنڈرات میں بدل رہے تھے تو کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو برطانیہ جنگ نہیں ہار سکتا۔چرچل جانتا تھا کہ ممالک کی طاقت فوج اور تباہ کن ہتھیار نہیں اس ملک کے عوام کی اپنے وطن سے محبت اور وفاداری ہوا کرتی ہے۔عمران خان بھی اس آفاقی سچائی کا ادراک رکھتے تھے اسی لئے انصاف، مساوات شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنانے کی بات کرتے رہے ۔ عمران خان کو اقتدار سنبھالے تین برس ہونے کو ہیں مگر ان کی ملک میں انصاف ، میرٹ اور شفافیت کے نظام کو رائج کرنے میں کامیابی کا اندازہ امریکہ کے ورلڈ جسٹس کے تحت گزشتہ کئی برسوں سے دنیا کے مختلف ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی اور عدالتی نظاموں سے متعلق اعداد شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی عدلیہ تنخواہوں اور مراعات کے لحاظ سے 128ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ادارے نے اس سال اپنی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان میں قانون کی بالادستی یا رول آف لاء ایک انتہائی اہم انڈکس ہے جس کے مطابق جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی کی صورت حال پاکستان کے مقابلے میں بہتر ہے عدلیہ کی کارکردگی کے لحاظ سے نیپال کا 61 واں نمبر سری لنکا کا 66 واں اور بھارت کا 69 واں نمبر ہے جبکہ پاکستان 128ممالک میں 120ویں نمبر پر ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی اس رپورٹ میں پاکستان کی رینکنگ پر سوال اس لئے بھی اٹھایا جا سکتا کیونکہ شاید دنیا میں پاکستان ہی ایسا واحد ملک ہو جہاں ایک بااثر شخص دن دیہاڑے ایک پولیس اہلکار کو شراب کے نشے میں دھت بیچ سڑک کچل دے اور سی سی ٹی وی کیمروں اور دیگر ناقابل تردید شواہد کے ہوتے ہوئے بھی صرف پیسے کے زور پر عدالت سے جیت کا نشان بناتے ہوئے نکلے، دوسری طرف عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کا عالم یہ ہو کہ رمضان میں ہوٹل کھولنے پر مجسٹریٹ ایک شخص کو پانچ دن کی سزا سنا کر جیل بھیج دے اور اڑھائی سال تک غریب جیل سے باہر نہ آ سکے۔ جب عدل کا ترازو دولت اثر و رسوخ اور لالچ کے سامنے بے بس ہو تو منظر بھوپالی یہ طعنہ کیوں نہ دے: لوبھیوںکی بستی میں مایا کے ترازو سے فیصلہ کرے گا‘ کون‘کیا ہے پاپ کیا ہے پن لو بھیوں (لا لچیوں)کے اس معاشرے کی اکثریت نے عمران خان کو انصاف مساوات، شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنانے کیلئے ووٹ دیے تھے اور یہ کام ایسا نہیں تھا کہ عمران خان وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ کر حکم صادر کرتے اور ملک میں انصاف کا بول بالا ہو جانا تھا۔ ایک ریڑھی بان سے ایک قانون دان اور خود وزیر اعظم تک کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ عدالتوں میں ہونے والی ناانصافیوں میں قصور جج کا نہیں قانونی موشگافیوں کا ہوتا ہے۔ جج انصاف کی فراہمی کے لیے شواہد اور دستاویزی ثبوتوں کا محتاج ہوتا ہے۔ پولیس تحقیقاتی ادارے ظالم اور مظلوم کے وکلا سے مل کر نظام عدل تشکیل پاتا ہے اسی نظام میں رہتے ہوئے جج کو شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ ملک میں انصاف یقینی بنانے کے لئے نظام عدل میں انصاف پسندی کو رائج کرنا پڑتا ہے یہ کام ہماری عدلیہ نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے کرنا ‘عمران خان بھی اگر ملک میں انصاف اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں تو انہیں پارلیمنٹ میں عدالتی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ مگر بدقسمتی سے تحریک انصاف کی تمام تر توجہ نظام عدل میں اصلاحات کے بجائے اپوزیشن پر مقدمات بنانے اور اپوزیشن کی قیادت کو جیلوں میں ڈالنے پر مرکوز رہی۔حکومت تین سال سے ہر روز اپوزیشن کے رہنمائوں کے خلاف ٹیلی ویژن پر عدالت لگا رہی ہے حکومتی وزیر، مشیر ٹی وی سکرینوں پر اپوزیشن رہنمائوں کی کرپشن اور لوٹ مار کے ثبوت اور اعداد شمار پیش کرتے ہیں مقدمات بنائے جاتے ہیں جو عدالتوں میں آتے ہیں کیونکہ عمران خان کی حکومت نظام عدل میں اصلاحات کرنے میں ناکام رہی ہے اس لئے ملزمان قانونی موشگافیوں کا فائدہ اٹھا کر ضمانت پا کررہاہو رہے ہیں ردعمل میں تحریک انصاف کے وزیر ،مشیر ہی نہیں خود وزیر اعظم یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ بدعنوان اور کرپٹ سیاستدان صرف ان کا مسئلہ نہیں عدالتیں بھی احتساب میں اپنا فعال کردار ادا کریں۔حکومت کے اس پراپیگنڈے کے نعد کہ حکومت تو قومی دولت لوٹنے والوں کو جیل میں ڈال رہی مگر ملزمان عدالتوں کے ذریعے رہائی حاصل کر رہے ہیں عام آدمی یہ سمجھنے کے قابل نہیں رہتا کہ قصور صرف عدالتوں کا نہیں نظام عدل کا ہے جس کی ملزمان پر گرفت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ طاقت ور قانون کے جال کو توڑکر نکل جاتا ہے۔ ان حالات میں عام پاکستانیوں میں یہ تاثر بھی مضبوط ہو رہا ہے کہ حکومت کرپٹ عناصر کو پکڑ رہی ہے مگر عدالتیں ریلیف دے رہی ہیں۔ اگر عمران خان کی حکومت نے نطام عدل میں اصلاحات کر کے نظام عدل کو طاقت ور اور اتنا موثر بنایا ہوتا کہ ملزمان کے ساتھ تفتیش میں قانونی سقم چھوڑنے والے اہلکاروں اور عدالتوں میں کیسز کی مناسب پیروی نہ کرنے والی حکومتی ٹیم کے لیے بھی جزا اور سزا کا نظام موجود ہوتا تو کرپٹ عناصر کو عدالتوں میں ریلیف ملنے کا تناسب یہ نہ ہوتا اور عوام کو انصاف ہوتا ہوا دکھائی بھی دیتا۔ اگر ایسا ہوتا تو نظام کی خامیوں سے بے خبر ہر عدالتی فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر فہمی بدایونی کا یہ شعر لکھ کر یہ دھائی نہ دے رہے ہوتے : عدالت فرش مقتل ہو رہی ہے اصولوں کی شہادت ہو گئی کیا