سرکار اور اس کے منتخب نمائندوں کی بدولت لاہور خطروں کا شہر بنتا جا رہا ہے۔دو مہینے پہلے شوکت خانم ہسپتال کے قریب سڑک یکایک بیٹھ گئی۔ایک کار تیس فٹ گہرے گڑھے میں جاگری۔سوار خاندان زخمی ہو گیا۔کئی دن ٹریفک متبادل راستے سے گزاری جاتی رہی۔پچھلے بیس روز سے اسی گڑھے والی جگہ کے قریب ایک اور گڑھے کو بھرنے پر کام ہو رہا ہے۔معلوم نہیں کیا دبدھا پڑی ہے کہ کام ختم ہونے میں نہیں آ رہا ۔ٹریفک متاثر ہے ،جو اس طرف آ جائے اس کے بیس پچیس منٹ ضائع ہونا یقینی ہیں۔رائے ونڈ روڈ پر دفتر آتے ہوئے شیر شاہ کالونی والا اشارہ عبور کرتے ہیں۔ٹیکنالوجی کالج سے تھوڑا آگے سڑک کئی ماہ سے مسلسل بیٹھ رہی ہے۔یہاں سے گزرتے ہوئے ڈر لگتا ہے‘ یوں معلوم ہوتا ہے کسی روز بڑا حادثہ رونما ہو کر رہے گا۔ میں روز شاہد کو یاد دلاتا ہوں کہ یہاں ڈیوائڈر کے پاس سے گزرو ،سڑک کے درمیان میں نہ رہو۔ پچھلے ماہ کسی نے گٹر نما گڑھے میں سیمنٹ بجری کا ملغوبہ ڈال دیا۔سڑک لیکن اب بھی بیٹھ رہی ہے۔ایک لہر سی بن گئی ہے۔گاڑی گزرتی ہے تو جھٹکا محسوس ہوتا ہے۔چند ہفتے قبل نہر کے ساتھ مصروف ترین ٹریفک والی سڑک میں گڑھا پڑ گیا۔کئی ڈمپر مٹی کے ڈالے گئے۔ہفتے کے روز نہر والی سڑک پر پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس کے قریب پھر بڑے بڑے شگاف پڑ گئے۔ہر شگاف میں ایک کار گم ہو سکتی ہے۔اردگرد کی سڑک بھی بیٹھ گئی ہے۔لگتا ہے سڑک کا پیٹ خالی ہو گیا ہے‘ بارشی پانی سڑک کے نیچے ڈالی گئی مٹی کو بہا کر کہیں لے گیا ہے۔ڈیڑھ سال پہلے ضمنی الیکشن کے موقع پرامیر چوک کالج روڈ سے ایک دو رویہ سڑک باگڑیاں چوک کی طرف تعمیر کی گئی ہے۔ اس سڑک کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ساتھ نکاسی آب کا نظام موجود ہی نہیں۔تھوڑی سی بارش ہوتی ہے اور سڑک دریا بن جاتی ۔پانی گرین بیلٹ والی جگہ نالہ بنا کر نکالا جا سکتا تھا لیکن نہیں نکالا گیا ۔سڑک آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگلے چند ماہ میں اس کے پتھر نکل آئیں گے اور ووٹ کے عوض سڑک کی تعمیر کا سودا کرنے والے سیاسی تاجر یہاں منڈلانے لگیں گے۔ اہل لاہور موت کی کھال پر چل رہے ہیں،جہاں کالے اژدہا کی کھال پھٹتی ہے زندہ لوگ اندر جا گرتے ہیں۔ٹھیکیدار ، سرکاری افسران اور منتخب نمائندے مل کر یہ سڑکیں بناتے ہیں۔بارش برستی ہے تو ان کی کمائی کا سیزن شروع ہوجاتا ہے۔حکمران طبقات جان بوجھ کر ان مسائل پر توجہ نہیں دیتے کہ یہ ان کی آمدنکا ذریعہ ہے۔ لاہور کی سڑکوں کی خستہ حالت مسافروں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے اور سڑکوں کی خراب حالت سے پریشان مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سڑکوں پر گاڑی میں سوار ہونا بہت تکلیف دہ ہے۔ کالج روڈ ٹاون شپ کو ہی دیکھ لیں۔ جسم کے ہر حصے کو تکلیف پہنچتی ہے۔ مزید یہ کہ اکثر رکشہ اور موٹر سائیکل سوار ٹوٹی سڑکوں کی وجہ سے حادثات کا شکار ہو رہے ہیں۔ بچے سکول جاتے ہیں ،والدین کو دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دیگر آبادیوں کیسڑکوں کی حالت بھی کافی عرصے سے خراب ہے اور جب بھی لوگ باہر نکلتے ہیں تو ان کے پاس خستہ حال سڑکوں کو برداشت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔کئی علاقوں میں کھلے مین ہول کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو دعوت دے رہے ہیں ۔ کوئی بھی ان میں آسانی سے گر سکتا ہے۔ جہاں کھلے نالے ہیں وہاں نالے اور سڑک کی سطح تقریباً ایک جیسی ہے۔ اندھیرا ہونے کے بعدیہ مکینوں کے لیے زیادہ سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔ اخبارات کو ایڈیٹر کی ڈاک میں مراسلے ملتے ہیں ،شہری بلدیاتی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت کی جائے اور کھلے نالے کو مناسب طریقے سے ڈھانپ دیا جائے۔ان مراسلوں پر حکومت کبھی متحرک نظر نہیں آتی ۔مون سون کئی مسائل لے کر آتا ہے ۔ شہر کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کی صورت حال بدتر ہو جاتی ہے اور گڑھوں کے اندر موجود پانی کی وجہ سے مسافروں کے لیے گڑھوں کی گہرائی کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ لاہور میں پیدل چلنے کے لیے جو بہت کم انفراسٹرکچر آج موجود ہے وہ ناکارہ ہو چکا ہے۔فٹ پاتھ اکثر پیدل چلنے والوں اور مسافروں کے لیے ناقابل رسائی اور تکلیف دہ ثابت ہوئے ہیں۔ ان فٹ پاتھوں نے پیدل چلنے والوں کے لیے اضافی حفاظتی خدشات پیدا کیے ہیں ۔شہر میں سڑکیں بنانے اور ڈیزائن کرنے والوں میں فہم کی کمی بری طرح جھلکتی ہے اور بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی میں طبقاتی تعصب کو ظاہر کرتی ہے۔ ایساچاہے جان بوجھ کر ہوا یا نہیں لیکن لگتا ہے کہ لاہور کو اس وقت امرا کے لیے بنایا جا رہا ہے نہ کہ عام لوگوں کے لیے۔ جناح ہسپتال سے برکت مارکیٹ کی طرف جائیں تو فیصل ٹاون گول چکر کے بائیں طرف ایک ادارہ ہے جو سڑکوں و عمارتوں کی تعمیر کا معیار دیکھتا ہے ۔یہ ادارہ کچھ فنی تربیت بھی دیتا ہے ۔یہاں سے فارغ التحصیل لوگ کہاں جاتے ہیں، ان کے کام میں معیار کیوں نہیں رہتا کبھی کسی نے غور کیا ؟سڑکوں اور سرکاری عمارات کی تعمیر کا کام معیاری رکھنے کے لئے سرکار نے کئی سپروائزر، اوورسیئر ، انجنیئر ، ایکسیئن اور ایگیزیکٹو انجنیئر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ سب مل کر بھی سڑکوں کو محفوظ نہیں بنا سکے ۔نظام پچک چکا ہے ۔سب اپنی موت بھول گئے بس دوسروں کوموت کے منہ میں جاتا دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان ہر اس شخص کے لئے جنت ہے جو بد عنوانی اور قانون شکنی میں بے خوف ہے۔لوگ دھڑلے سے رشوت لیتے ہیں،سڑکیں منظور کی جاتی ہیں، گڑھے جان بوجھ کر مدتوں بھرے نہیں جاتے، بڑا حادثہ ہوتا ہے تو سرکار ڈھیر سارے فنڈز فراہم کرتی ہے، جو کام بیس پچیس ہزار میں ہو سکتا ہے اس پر بیس پچیس لاکھ خرچ کئے جاتے ہیں۔سڑکوں کو موت کی وادی بنا کر ان کی مرمت پر ووٹ لینے والی ذہنیت نشو و نما پا رہی ہے۔