کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں رحیم یار خان لیاقت پور کے قریب حادثہ پیش آیا۔ جس میں 73افراد جاں بحق جبکہ کئی درجن کے قریب زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ریلوے حکام کے مطابق تین بوگیوں میں 200سے زائدافراد سوار تھے۔ حادثے کے بعد بوگیوں سے کئی افراد کی جلی ہوئی لاشیں نکالی گئی ہیں جبکہ کئی لاشوں کے ٹکڑے بھی ملے ہیں۔ صدر‘ وزیر اعظم اوراپوزیشن لیڈر نے اس حادثے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ پاکستان ریلوے کو ملکی ٹرانسپورٹ میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت حاصل ہے۔ ریل کے ذریعے ہزاروں اور لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد سالانہ سفر کرتے ہیں۔ ٹرین میں سفر کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہوتا ہے۔کیونکہ یہ سفر سستا ہونے کے ساتھ ساتھ محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ وزیر ریلوے شیخ رشید احمدکے ایک سالہ دور میں 80ٹرین حادثات ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود وزیر موصوف بوسیدہ پٹڑیوں پر بغیر کسی منصوبہ بندی کے آئے روز ٹرینوں کے افتتاح کرتے نظر آتے ہیں۔حادثات سے انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ محکمہ ریلوے کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے لیکن وزیر ریلوے کو ’’سیاسی زائچے بنانے‘‘ ’’پیش گوئیاں کرنے‘‘ اپوزیشن کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔2008ء سے 2013ء تک کے پانچ برسوں میں ریلوے کو کھٹارہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی گئی۔ یہاں تک کہ پرائیویٹ ٹرانسپوٹرز کو فائدہ پہنچانے کے لیے ریلوے کی مال گاڑیوں کو بند ہی کر دیا گیا۔ لیکن 2013ء سے 2018ء کے دوران ریلوے میں پھر سے جان آئی اور اس کا پہیہ چلنا شروع ہوا۔پانچ برسوں کی محنت اور تگ و دو کے بعد ریلوے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوا لیکن شیخ رشید کے ایک سالہ دورِ وزارت میں پھر سے ریلوے کو ٹریک سے اتارنے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ ریلوے 75ہزار خاندانوں کی کفالت کر رہا ہے۔ خدانخواستہ اگر اس کا پہیہ جام ہوا تو لاکھوں افراد کو روزی روٹی کے لالے پڑ جائیں گے۔ اس لئے شیخ رشید دوسروں کے کاموں میں مداخلت کی بجائے اپنی وزارت پر توجہ دیں۔ اگر وہ یہ ذمہ داری نہیں نبھا سکتے تو پھر کسی اور وزارت میں چلے جائیں۔ لیکن اس کمائو پتر ادارے کا بیڑا غرق مت کریں۔ ریلوے حکام لیاقت پور حادثے کو گیس سلنڈر سے جوڑ رہے ہیں۔ بالفرض اگر حادثہ گیس سلنڈر سے ہوا ہے تو پھر بھی ریلوے حکام اس سے بری الذمہ نہیں ہیں۔ مسافروں کا سامان چیک کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ وزیر ریلوے ،چیئرمین ریلوے اور آئی جی پولیس ریلوے 73قیمتی جانوں کا ملبہ مسافروں پر ڈال کر اس حادثے سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکتے۔ انہیں اپنی نااہلی ‘ غفلت اور کام چوری کا اقرار کرتے ہوئے اس حادثے کے ذمہ داروں کا تعین کرنا ہو گا۔ اگر دیکھا جائے تو ریلوے میں پہلی بار سلنڈر نہیں رکھے گئے۔ ریلوے کی جتنی بھی ڈائننگ کاریں ہیں جو دورانِ سفر مسافروں کو چائے اور کھانا بنا کر دیتی ہیں ان کا چولہا کس پر چلتا ہے؟ ان کے کچن میں ایک نہیں بلکہ چھ بڑے سلنڈر ہوتے ہیں۔ چلتی ٹرین میں سلنڈر کا استعمال اگر عام مسافروں کے لئے ممنوع ہے تو پھر ڈائننگ کاروں میں اس کے استعمال کی اجازت کیوں دے رکھی ہے؟ریلوے حکام اس بارے بھی کوئی لائحہ تشکیل دیں کیونکہ اس حادثے کے بعد بھی ڈائننگ کاروں میں گیس سلنڈر رکھے ہوئے ہیں ۔جو کسی بھی وقت کسی حادثے کا سبب بن سکتے ہیں ۔لہٰذا اس نقطہ نظر سے بھی ٹرینوں کی سیکورٹی مضبوط بنانا ضروری ہے! عینی شاہدین مسافروں نے اس بات کی بھی گواہی دی ہے کہ خود ریلوے عملے نے بتایا کہ ٹرین کے پنکھے میں تین سے چار دن سے شارٹ سرکٹ ہو رہا تھا۔ پنکھے میں گزشتہ روز دوبارہ شارٹ سرکٹ ہوا اور پنکھا نیچے آ گرا جس کی چنگاریوں سے آگ لگ گئی۔ جس نے تیزی سے ٹرین کو لپیٹ میں لیا۔ بدقسمتی سے جب آگ لگی تب ریلوے عملہ موجود تھا نہ ہی ٹرین کو روکنے کی ایمرجنسی زنجیر کام کر رہی تھی ۔ جبکہ آگ بجھانے کا سامان بھی ٹرین میں موجود نہیں تھا۔آگ بجھانے کے آلات تو کئی ٹرینوں میں موجود نہیں ہیں۔اس لیے وزیر ریلوے فی الفور تمام ٹرینوں میں آگ بجھانے کے آلات نصب کروائیں تاکہ کسی بھی ایمر جنسی کی صورت میں اسے استعمال میں لایا جا سکے۔ کسی بھی حادثے میں زخمی اور عینی شاہدین کی گواہی کو ہی معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ تیز گام ٹرین حادثے میں بھی موقع پر موجود افراد کی گواہی کو معتبر جانا جائے گا، اس لئے وزیر ریلوے مسافروں سے سلنڈر پھٹنے کا پروپیگنڈا کر کے حادثے کی ذمہ داری سے بری الذمہ نہ ہوں۔ ہر دو صورت میں حادثے کی ذمہ دار ریلوے انتظامیہ ہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس واقعہ کی فوری انکوائری رپورٹ طلب کی ہے۔ اگر اس حادثے کی رپورٹ ریلوے افسران نے ہی مرتب کرنی ہے۔ تو پھروہ شفاف اور غیر جانبدار کیسے ہو گی؟ ایک برس میں 80حادثات معمولی بات نہیں ہے۔ وزیر اعظم ایک سالہ حادثات کی تحقیق کے لئے با اختیار کمیشن تشکیل دیں تاکہ ٹرین حادثات کی اصل وجوہات سامنے آ سکیں۔جمعیت علما ء اسلام کو بھی اس دکھ اور افسوس کی گھڑی میں متاثرہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے دھرنے کا منصوبہ ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔اور اپنے جلسے میں سانحہ لیاقت پور میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے دعا کروانی چاہیے ۔تاکہ مرحومین کے لواحقین کی دلجوئی کی جا سکے ۔ویسے بھی ایسے لمحات میں قوموں کا اکٹھا ہو کر دوسروں کے دکھوں کو بانٹنا ہی انسانیت کی عمدہ مثال ہے۔