مسکراہٹ‘ تبسم‘ ہنسی‘ قہقہے سب کے سب کھوگئے ہم بڑے ہوگئے ذمہ داری مسلسل نبھاتے رہیں بوجھ اوروں کا خود ہی اٹھاتے رہیں اپنے دکھ سوچ کر روئیں تنہائی میں محفلوں میں مگر مسکراتے رہیں کتنے لوگوں سے اب مختلف ہوگئے ہم بڑے ہوگئے اور کتنی مسافت ہے باقی ابھی زندگی کی حرارت ہے باقی ابھی وہ جو ہم سے بڑے ہیں سلامت رہیں ان سبھی کی ضرورت ہے باقی ابھی جو تھپک کر سلاتے تھے خود سوگئے ہم بڑے ہوگئے‘ ہم بڑے ہوگئے آج کے کالم کا آغاز جس اداس کردینے والی نظم سے ہوا ہے‘ یہ مجھے ایک خاتون نے واٹس ایپ کی ہے۔ جب آگے کی نسل دنیا میں اتر آئے اور اوپر والی پْشت واپسی کی ریل میں بیٹھ جائے تو انسان یک بہ یک بڑا ہوجایا کرتا ہے۔ میں اس خاتون کو اکیس برس سے جانتا ہوں. چنانچہ مجھے علم ہے کہ یہ نظم پڑھ کر وہ کس قدر ناسٹیلجیا کا شکار ہوئی ہوں گی۔ میرا خیال بلکہ گمان ہے کہ مجھ سے زیادہ اس خاتون کی محسوسات کو کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ پتہ نہیں ان حالات میں اور کتنی خواتین ہوں گی مگر میں چوں کہ صرف انہی مکتوب نگار سے شناسا ہوں‘ اس لئے آپ سے کچھ شیئر کرنا چاہوں گا۔یہ وہ خاتون ہیں کہ جو دو دہائیاں قبل یکایک ’’بڑی‘‘ ہوگئیں۔ وہ تین بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں اور ظاہر ہے سب سے لاڈلی بھی۔ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے اور اس کے بعد شادی سے قبل تک جو دو تین برس انہوں نے گھر میں گزارے تو اسی طْرّے سے جو ایک بیٹی کو بابل ہی کے گھر میں میسر آیا کرتا ہے۔ پھر بابل کا گھر بھی خیر سے مرفع الحال‘ سو اچھا اوڑھنا اور اچھا کھانا دست یاب۔ پہناوا بہم کرنے میں اور میز پر پہنچنے سے قبل کھانے کی تیاری کے مراحل میں کیا تردّد درکار ہوتا ہے‘ اس سے بھلا کس کو سروکار تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ان خاتون کی شادی ایک ملازمت پیشہ شخص سے ہوگئی۔ مزاج میں یوٹرن لانا بڑا جوکھم کا کام ہے اور اس پر قدرت کسی صوفی کو ہو تو ہو‘ عام آدمی کا اس دشت کی سیاحی سے کیا لینا دینا! یہی یوٹرن تھا جو اس خاتون نے بہ رضا و رغبت لیا اور پھر ایک دم سے وہ ’’بڑی‘‘ بھی ہوگئیں۔ تب سے اب تک ان کی زندگی قربانیوں سے عبارت ہے۔ عورت کا ایک روپ ایسا ہے جو اس کی دیگر تمام حیثیتوں پر غالب ہے اور وہ ہے ماں کا روپ۔ اس خاتون نے بھی اکیس سال سے یہ روپ ایسا اوڑھا ہے کہ اب وہ ان کے رگ و پے میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ اْن کی زندگی کا اب گویا دوسرا کوئی مقصد ہی نہیں سوائے بچوں کو راضی رکھنے اور شوہر کی خوش نودی کے۔ خاتون کی یہ خواہش تھی کہ زندگی میں وہ ایک ورکنگ وومن بنیں۔ علم اور جذبہ دونوں ہی موجود تھے۔ شادی کے بعد انہوں نے دو ایک مرتبہ ایک نجی کالج میں مہینہ بھر کام بھی کیا مگر اس دوران یہ دیکھا کہ پہلوٹھی کی بچی بری طرح متاثر ہورہی ہے تو کالج چھوڑدیا۔ تاہم اپنا شوق انہوں نے پرائیویٹ طور پر قانون اور ایک مزید ایم اے اور پھر ایم فل کی ڈگری لے کر پورا کیا۔ ان دنوں وہ پی ایچ ڈی کا تھیسز لکھا کرتی ہیں۔ جس خاتون نے کبھی چولہے کا منہ نہ دیکھا تھا‘ سبھی کچھ کرتی ہیں اور پھر خاوند کی مالی حالت بھی ایسی قابلِ رشک نہ تھی۔ میں اس امر کا گواہ ہوں اور میرے علاوہ کوئی یہ شہادت دینے کا اہل بھی نہیں کہ انہوں نے کبھی اپنے شوہر سے کوئی فرمائش نہیں کی۔ یہ اْن کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو روئے زمین کی کسی عورت میں ڈھونڈے سے بھی شاید نہ ملے۔پھر قدرت نے انہیں مزید ’’بڑا‘‘ یوں کردیا کہ باری باری والدہ کا اور والد کا چھتنار سایہ اْن کے سر سے ہٹالیا گیا۔ یہ ایسا دکھ ہے جسے وہ بہ ظاہر تو برداشت کئے ہوئے ہیں مگر مجھے پتہ ہے کہ وہ بڑی شدت سے محسوس کرتی ہیں کہ جو تھپک کر سلاتے تھے‘ خود سوگئے ہم بڑے ہوگئے۔کئی مرتبہ یہ خاتون اپنے شوہر اور بچوں سے چھپ کر تھپکیاں دینے والے ہاتھوں کی جدائی کا غم مناتی گھر کے کونوں کھدروں سے برآمد ہوچکی ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو خوشیاں تو دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں مگر دکھ کو اندر ہی اندر جھیلتے ہیں۔ چند برس ہوتے ہیں خاتونِ مذکور کا سارا زیور کھوگیا‘ ایک انگوٹھی تک بھی تو نہیں رہی۔ زیور میں عورتوں کی تو اس میں جان ہوتی ہے۔ خاتون بھی شدید پریشان تھیں۔ تھانہ کچہری سے کچھ نہ بن پڑا تو اْن کے شوہر نے کہا لوگوں نے بتایا ہے کہ فلاں جگہ حساب لگانے والے بیٹھے ہیں جو بڑا تیر بہ ہدف سراغ دیتے ہیں۔ خاتون نے کہا ’’میں نے قرآن میں پڑھا ہے کہ پانسہ پھینکنے والوں اور قیافے لگانے والوں سے دور رہو۔ زیورتو گیا سو گیا‘ اب عاقبت کیوں خراب کروں‘‘ وہ جو اوپر بیٹھا ہے نا صاحب! وہ کسی کا ادھار کم ہی رکھتا ہے۔ قریب سال بھر بعد جب یہ خاتون ہر قسم کی سرکاری ملازمت سے کم و بیش مایوس ہوچکی تھی تو ایک دن پبلک سروس کمیشن کا ایسا اشتہار آیا جس کے لئے ان خاتون کی عمر پوری تھی۔ درخواست گزاردی‘ تحریری امتحان‘ انٹرویو اور پھر براہِ راست اٹھارہویں گریڈ کی افسر۔ مالیات کا شعبہ تو بہتر ہوا مگر اب وہ سویرے پانچ بجے جو اٹھتی ہیں تو پھر رات گیارہ بجے ہی کمر بستر سے لگاپاتی ہیں۔ خاوند‘ بچوں کی ذمہ داریاں جوں کی توں اٹھائے ہوئے ہیں اور اس پر نوکری کا بوجھ مستزاد۔کالم کے شروع میں نقل کی گئی نظم پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ اس نظم کا صحیح مخاطب اگر کوئی ہے تو وہی خاتون۔ یہ نظم پتہ نہیں کیسے بھیج دی ورنہ وہ اتنی ’’بڑی‘‘ ہوگئی ہیں کہ اپنے اندر کا اداس موسم میرے ساتھ بھی شیئر نہیں کرتیں۔ میں‘ کہ جو اْن سے عمر میں تین برس بڑا ہوں اور اْن کا شوہر۔