زاہد ڈار اپنے آپ سے بچھڑا ہوا‘ دنیا کی بھیڑ میں گم‘ زندگی سے ناراض‘ مسلسل ذہنی کرب سے گزرتا ہوا ایک ایسا کردار تھا جس پر جون ایلیا کا یہ شعر صادق آتا ہے: میں بھی بہت عجیب ہوں‘ اتنا عجیب ہوں کہ بس خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں!! کتاب اس کا عشق نہیں‘ اس کی پناہ گاہ تھی۔ رزم گاہ حیات میں وہ شکست خوردہ سپاہی تھا جو اپنے ہی سوالوں کے تیروں سے زخم زخم تھا۔ کائنات‘ زندگی‘ عدم‘ وجود‘ ہونا نہ ہونا کے ہزارہا سوالوں کی کاٹ دار شمشیریں ہمہ وقت اس کے وجود پر تنی رہتیں اور ان سوالوں کے جواب نہ پا سکنے کے ان گنت گھائو اس کے احساس کے بدن پر سلگتے تھے۔ روح میں ہمہ وقت ایک تلاطم برپا رہتا: ڈبویامجھ کو ہونے نے‘ نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا اس کرب کا اظہار وہ اپنی نثری نظموں میں کرتا رہا۔ زندگی ایک خواب ہے میرے لیے محبت کا ایک طویل خواب میرا کوئی گھر نہیں‘ میں اپنے پاگل پن کے ریگستان میں بھٹک رہا ہوں میں اپنے اندر سفر کر رہا ہوں دنیا میرے لیے نہیں ہے میں اپنی تنہائی میں قید ہوں محبت کے طویل اور اذیت ناک خواب میں مبتلا یہ مسلسل جاں کنی کی حالت ہے کیا یہ زندگی ہے؟ میں جس جواب کی تلاش میں تھی‘ وہ زاہد ڈار نے اپنی نظم کے آخری مصرعے میں خود ہی دے دیا کہ وہ کیا یہ زندگی ہے؟ یقینا نہیں۔ جو زاہد ڈار نے گزاری وہ زندگی نہیں‘ آئیڈیلزم کے برزخ میں گزرنے والا کرب اور اذیت ناک سفر تھا۔ زندگی تو توازن کے دائرے میں گزرتی ہے۔ زندگی کو اس کی تمام تر حقیقتوں‘ حقوق و فرائض کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے اور ان حقیقتوں سے فرار ممکن نہیں۔ زاہد ڈار نے جو زندگی گزاری یا جو زندگی اسے گزارنا پڑی وہ زندگی کی حقیقتوں سے فرار تھا۔ زندگی کے میزان پر خوابوں اور آئیڈیلزم کے سامان کا پلڑا زندگی کی اصل حقیقتوں کے سے زیادہ بھاری ہو جائے تو زندگی توازن میں نہیں گزرتی۔ ایک المیہ بن کر رہ جاتی ہے۔ خواب ‘خواہشیں اور آئیڈیل بہتر زندگی کی خواہش کے سفر میں ا یندھن ہیں۔ زندگی خواب سے عبارت ہے لیکن اس کی تعبیر کے لیے جدوجہد زندگی کی بدصورت حقیقتوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ ہر حساس تخلیق کار‘ احساس کی آنچ پر سلگتا ہے۔ کائنات‘ زندگی‘ ازلی و ابدی‘ تنہائی‘ عدم‘ وجود عشق محبت‘ خواب زندگی کے آئیڈیل سے جڑے سوالوں کا جوار بھاٹا، ہر تخلیق کار کے اندرون ذات میں اودھم مچائے رکھتا ہے۔ اس کے توازن کو بے ترتیب کر کے رکھ دیتا ہے۔ زندگی کی حقیقتوں کے تقاضے مگر اور ہیں۔ زندگی عمل سے عبارت ہے اور عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ زندگی ایک مسلسل کوشش ناتمام ہے اور کوشش ناتمام وہی کرتا ہے جو محض خواب اور آئیڈیلزم کی دھند میں زندگی بسر نہیں کرتا۔ ایک جنگجو کی طرح حقیقتوں کے ساتھ نبرد آزما رہتا ہے۔ وہ اپنے شخصی دائرے سے نکل کر اجتماعی مقصد کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ وہ بوجھ نہیں رہتا بوجھ بانٹتا ہے۔ زاہد ڈار کی زندگی کو آئیڈیلاٹز نہیں کیا جا سکتا۔ عدم توازن کی راہ پر لڑھکتی ہوئی زندگی جس میں وہ اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے بھی دوستوں کی مدد کا طلبگار رہا۔ زندگی سے مایوس یہ ایک قابل رحم شخص کی زندگی تھی۔ میں لاکھ کوشش بھی کروں تو کتاب کی دنیا میں غرق ایک ذہین تخلیق کار کی اس ضائع ہوئی زندگی کی تحسین نہیں کرسکتی۔ شاید اس لیے کہ میں خود اپنی زندگی میں اس مرحلے سے گزری ہوں جب زندگی یہ سوال کرنے لگتی ہے کہ ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔ تو حساسیت کی یہ سطح انتہائی تکلیف دہ ہے۔ میں اپنے رب کے کرم سے اس گردابسے نکل آئی مگر جانتی ہوں کہ عدم توازن کی راہ کتنی پرخار ہے۔ ہم سب لوگ جو اپنی اپنی زندگی کے مقاصد سے جڑے خواب اور حقیقت کے توازن پر رکھی ہوئی زندگی۔ حقوق و فرائض کی ادائیگیوں کے ساتھ حسن عمل کے سکون میں گزارتے ہیں۔ تو ہمیں زاہد ڈار کی زندگی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ واہ کتنا بڑا کتاب کا عاشق تھا مگر میں سمجھتی ہوں کہ کتاب اس کا عشق نہیں۔ اس کی پناہ گاہ تھی۔ کتاب اس کے لیے راہ فرار تھی۔ عشق انسان کو زندگی سے مایوس نہیں کرتا۔ عشق امید کا استعارہ ہے جبکہ جانے والے نے تو اپنی ایک کتاب کا نام محبت اور مایوسی کی نظمیں رکھا۔ ایک وقت تھا کہ سوچا جاتا تھا کہ ادب اور صحافت سے جڑے شاعر اور لکھاری ٹائپ لوگ بے ترتیب الجھے ہوئے آئیڈیلزم کی دھند میں زندگی گزارتے ہوئے عجیب و غریب سے نارمل لوگوں سے جدا افراد ہوتے ہیں۔ اس کی ایک کلاسک مثال جون ایلیا کی دی جا سکتی ہے۔ جتنا منفرد اور بے مثل تھا اتنا ہی ابنارمل اور عجیب انسانی رویوں کا مالک تھا۔ جون ایلیا کی بیٹی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ بڑے شاعر تھے مگر اچھے باپ نہیں تھے ، وہ ہمیں ہماری زندگیوں میں میسر نہیں تھے جس کی وجہ سے ہماری زندگیاں تکلیف سے گزریں۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ بڑا لکھاری اور شاعر ہونے کے لیے ضروری ہے زندگی میں ترتیب اور توازن نہ ہو۔ یہ یکسر غلط تصور ہے۔ ٹیگور بیسویں صدی کا عظیم تخلیق کار۔ ہزاروں گیت لکھے۔ تراجم کئے۔ دنیا بھر کے سفر کیے۔ ذاتی زندگی میں بیوی اور بیٹے بیٹی کی وفات کا صدمہ سہا مگر زندگی انتہائی ترتیب اور توازن سے گزاری۔ لکھنے پڑھنے کے علاوہ تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔ باقاعدہ باغبانی کی۔ متنوع موضوعات پر ہزاروں کتابیں پڑھنے والا ٹیگور اپنی زندگی میں انتہائی منظم انسان تھا۔ بے شمار مثالیں ہیں۔ قریب ترین مثال ممتاز تخلیق کار مستنصر حسین تارڑ کی ہے، جن کا اوڑھنا بچھونا ذریعہ معاش ہی لکھنا ہے۔ بے مثل تخلیقی نثر لکھنے والے ادیب مگر بحیثیت باپ اپنی ذمہ داریاں پوری توجہ سے ادا کیں۔ تینوں بچے قابل اور بہترین پوسٹوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس منو بھائی کو دنیا سے جاتے ہوئے بھی یہ پچھتاوا تھا کہ انہوں نے صحافت کی ذمہ داریوں میں اپنے اکلوتے بیٹے کی بیماری کو بھی نظر انداز کیا۔ وہی بات کہ زندگی توازن سے گزارنی ہے۔ زندگی کے دھارے سے ٹوٹے ہوئے اپنے آپ سے بچھڑے ہوئے ایسے تمام افراد مجھے قابل رحم لگتے ہیں کیونکہ وہ کسی خواب کے طویل اور اذیت ناک سفر میں مبتلا مسلسل جان کنی کی حالت میں رہتے ہیں۔ زاہد ڈار بھی ایسا ہی قابل رحم کردار تھا اسی لیے ہم زاہد ڈار کو آئیڈیلائز نہیں کرسکتے۔