26 اپریل2023 بدھ کے روز ماؤ نواز وں’’نکسلیوں‘‘ نے ریاست چھتیس گڑھ کے دانتے واڑا میں گھات لگا کر حملہ کیاجس میں بھارتی فوج کے 10اہلکار ہلاک جبکہ 12زخمی ہوئے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران باغیوں کا یہ ایک بڑا حملہ تھا۔اس سے قبل فروری سال 2018 میں سکما کے بھیجی میں نکسلیوں کے ساتھ لڑائی میں سکما میں ماؤنوازوں کے ساتھ تصادم میں بھارت کی نیم فوج سی آر پی ایف کے 24 اہلکار مارے گئے تھے ۔3اپریل سال 2021 ہفتے کو بیجاپور اور سکما اضلاع کی سرحدوں سے متصل ٹیرام کے جنگلوں میںبھارتی پولیس اور بھارت کی نیم فوجی اہلکاروں پر حملہ کر کے 23فوجی اہلکار ہلاک کردیئے جبکہ اس حملے میں32اہلکار زخمی ہوئے ۔ماؤ نوازطاقت کے زور پرسرک انقلاب’’کیمونزم ‘‘کو بالادست لانے کے لیے اور ایک کمیونسٹ سماج قائم کرنے کے لئے برسوں سے بھارتی افواج کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔کئی برسوںکے دوران ماؤ نواز وںکے حملے میں اب تک بھارتی فوج کے سینکڑوں اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں اور بھارتی حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود ان کا اثر برقرار ہے۔ مائونوازوں کے اثرپذیری کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے تقریبا 630 اضلاع میں سے 220میں وہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ وہ نیپال سے لے کر بھارت کے جنوبی سرحدکیرالہ تک ایک ریڈکوریڈور بناناچاہتے ہیں۔ جس میں بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ، مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش، مہاراشٹراور تمل ناڈو شامل ہیں۔ بھارت کی شمالی مشرقی ریاستوںکو ماؤ نواز یا نکسلیو کاگڑسمجھاجاتاہے، تاہم ماؤ نواز یا نکسلیوکے حملوں کی زد میں سب سے زیادہ، ریاست چھتیس گڑھ رہتی ہے۔ اس ریاست کے ضلع دانتے واڑہ، بستر، بیجاپور، کانکیر، کونڈا گاؤں، نارائن پور اور سکما اس مسئلے سے بری طرح متاثر رہے ہیں۔بھارت کی سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے والی کیمونسٹ پارٹیوں کے نقطہ نظرمیں آئے بدلائوکے باعث اب صرف چھتیس گڑھ کاعلاقہ نکسلی تحریک کا مرکز بنا ہوا ہے۔یہاں کا خاصا علاقہ جنگلوں پر محیط ہے اور ان جنگلوں میں صدیوں سے قبائلی آباد ہیں۔ یہ خطہ معدنیات سے پر ہے۔دہلی کی حکومت ان میں سے بہت سے علاقوں میں کان کنی کرنا چاہتی ہے اور وہاں بڑی بڑی فیکٹریاں لگانے اور نئے شہر بسانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس کے لیے ان زمینوں سے ان قبائلیوں کو بے دخل کرنا پڑے گا۔ اس لئے یہ سمجھ لیناچاہئے کہ چھتیس گڑھ میں لڑائی زمین اور قبائلیوں کے حق کی ہے۔ مائونواز یا نکسلی تحریک کی ایک بڑی وجہ سماجی اور اقتصادی عدم مساوات ہے۔برطانوی سامراج سے آزادی کے بعدبھارت کے بعض علاقوں میں کافی اقتصادی اور صنعتی ترقی ہوئی لیکن بہت سے علاقوں کویکلخت نظرانداز کردیا گیا جس کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگوں میں ناراضگی بڑھتی چلی گئی اور باغیوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ نکسلیوں کا زیادہ اثر ان علاقوں میں ہے جو معدنیاتی دولت سے مالا مال ہیں۔بھارت کے کئی تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ ان علاقوں سے بھارت کی بڑی بڑی کمپنیاں معدنیاتی دولت سے خود تو مالا مال ہوتی گئیں لیکن ان علاقوں میں رہنے والے عوام اور بالخصوص قبائلیوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ملا جس سے ان کے اندر ناراضگی اور غصہ بڑھتاچلاگیا جس کافائدہ براہ رسات نکسلیوں کوملاہے۔ مائووسٹ تحریک1967میں شمالی بنگال کے ایک چھوٹے سے گائوں’’ نکسل باڑی ‘‘میں کسانوں کی ایک بغاوت سے شروع ہوئی تھی جو اس زمین کا مالکانہ حق مانگ رہے تھے جس میں وہ کاشت کر رہے تھے۔اس تحریک کی ماں ’’کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا‘‘ہے۔ اس تحریک سے رفتہ رفتہ بھارت کی مختلف ریاستوں بنگال، اڑیسہ، بہار اور اتر پردیش کے ہزاروں تعلیم یافتہ شہری نوجوان منسلک ہوتے گئے اوراس طرح یہ تحریک بنگال سے نکل کر، بہار، اڑیسہ ، آندھرا، مدھیہ پردیش، کیرالہ، مہاراشٹر اور اتر پردیش تک پھیل گئی۔ ان سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ ان ریاستوںمیں دبے کچلے لوگوں کو برابری کا حق دلانا اور پورے بھارت میں میں بلالحاظ اونچ نیچ طبقات کے لئے یکساں نظام قائم کرناہے۔ اس تحریک کا نام ’’نکسل تحریک ‘‘پڑااوراس کامحور چین میں کمیونسٹ انقلاب کے بانی مائوزے تنگ تھے۔اس تحریک سے وابستگان کو لگا کہ بھارت میں غربت و ناانصافی کا خاتمہ پارلیمانی جمہوریت سے نہیں بلکہ ایک خونی انقلاب جسے وہ ’’سرخ انقلاب ‘‘کانام دے رہے تھے سے ہی ممکن ہے۔ مقصدکے حصول کے لئے بڑی تعداد میں نوجوانوں نے بھارت کے نچلے طبقوں اور غریب عوام کے ایک بہتر مستقبل کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ مائو نوازوں نے اتر پردیش اور بہار جیسی ریاستوں میں دلتوں اور قبائل پر ہونے والے اعلی ذات کے مظالم اور تفریق کے خلاف بھی آوازبلند کی۔نکسل تحریک کے پھیلائو نے اپنے اثرات دکھاناشروع کئے جس کے نتیجے میں بنگال اور کیرالہ جیسی ریاستوں میں موثر زمینی اصلاحات ممکن ہو سکے جبکہ بھارتی پارلیمان نے وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے حالات بدلنے میں تیزی سے اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ملک کے طبقاتی تفاوت پرمبنی حالات میں تبدیلی آناشروع ہوئی۔ مختلف اداروںنے یکساں شنوائی کاعمل شروع کیا جبکہ ریاستی حکومتوں اور سیاسی عمل میں جوابدہی کا پہلو بڑھنے لگا۔ بدلتے ہوئے حالات میں انتخابی سیاست میں یقین رکھنے والی کمیونسٹ پارٹیوں نے سیاسی لبادھے میں اپنے آپ کوچھپالیاجس کے باعث نکسلی تحریک کونقصان پہنچاکیونکہ کیمونسٹ پارٹیاں مائو نوز تنظیموں کی پرتشدد کاروائیوںکواب درست نہیں سمجھتی۔ان کانقطہ نظربدل گیااوروہ کہہ رہی ہیں کہ اب ان علاقوں میں لوگوں کے حقوق بتدریج ملنے لگے جن کے عوام کے لئے انہوںنے تحریک شروع کی تھی۔ 1967میں آل انڈیا کو آرڈیننس کمیٹی فار کمیونسٹ ریولوشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تاکہ مختلف کمیونسٹ گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر یک جا کیا جائے اور بالآخر 1969میں کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کی شکل میں ایک متحد جماعت منظر عام پر آئی۔ بنیادی طور پر تمام نیکسلائٹ گروپوں کا خمیر اسی پارٹی سے اٹھا ہے۔ لیکن بعد میں اختلافات کے باعث کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ’’مائووسٹ‘‘ ایک علیٰحدہ گروپ کی شکل میں’’ پیپلز وار گروپ ‘‘ کے ساتھ مل کر کام کرنے لگی۔2009میں ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتہ سے محض 250کلومیٹر دور لال گڑھ ضلع پر نکسلیوں نے قبضہ کر لیا تھا جو کئی ماہ تک قائم رہا۔ مائونواز نکسلیوں نے لال گڑھ کو بھارت کا پہلا آزاد علاقہ قرار دیا لیکن آخر کار بھارتی فورسزنے یہ علاقہ ان سے چھین لیا۔ نکسلائٹ تحریک کے لگ بھگ 30گروپ بن گئے تھے۔ تاہم یہ تعداد اب گھٹ کر کم ہو چکی ہے۔