اسلامی تعاون تنظیم کی کونسل برائے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس نائیجرکے دارالحکومت نیامے میں 27 نومبر کو منعقد ہونا تھا۔اجلاس سے چند روز قبل جب ایجنڈا سامنے آیا تو اس میں سے مقبوضہ جموں وکشمیر کا مسئلہ غائب تھا۔اخبارات میں خبر پڑھنے کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کی ویب سائٹ پر جاکر دیکھا تو واقعی ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کا ذکر ہی نہیں تھا ۔دل میں خیال آیا کہ یہ تو پاکستان کی بہت بڑی ناکامی ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونے والا ہے اور مقبوضہ جموں وکشمیر کا مسئلہ ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں ۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم کے وزرائے خارجہ کی بیٹھک ہورہی ہے اور مقبوضہ جموں وکشمیر کا مسئلہ ان کے زیر غور نہیں؟یہ اس طرف واضح اشارہ تھا کہ مسلم دنیا پاکستان سے خوش نہیں۔لیکن اجلاس کے اختتام پر اسلامی تعاون تنظیم نے متفقہ طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر کے بارے میں جو قرارداد پاس کی ہے اس کے بعد لگ ایسے رہا ہے کہ مسلم امہ کا تصور ابھی بھی موجود ہے ۔ اگر چہ یہ تصور اس حدیث کے مصداق نہیں کہ اگر جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو پورا جسم اس سے کانپ رہا ہوتا ہے لیکن اس قرارداد سے امید کی ایک کرن ضرور پیدا ہوئی ہے ۔اسلامی تعاون تنظیم کی کونسل برائے وزرائے خارجہ کی متفقہ قرارداد نہ صرف پاکستان کے دل کی آوازہے بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی عوام کی امنگوں کی ترجمان بھی ہے ۔ اسلامی دنیا کے 57 ملکوں نے 5اگست 2019 ء کے بھارت کے اس فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کیا ہے جس سے انھوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کیا تھا ۔یہ یکطرفہ فیصلہ تھا ۔ پاکستان جو کہ مسئلہ جموں وکشمیر کا مدعی فریق ہے اس نے اس فیصلے کو مسترد کیا تھا ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام جو بنیادی فریق ہیں انھوں نے بھی اس فیصلے کو مسترد کرکے پوری وادی میں احتجاج شروع کیا تھا لیکن بھارت کی حکومت نے وہاں کرفیو لگا دیا اور وہاں کی عوام ابھی تک کرفیو زدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔قابض فریق بھارت نے گزشتہ سات عشروں سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی عوام کو رام کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں کے عوام ان کے ساتھ جانے کو تیار نہیں۔ ثالث فریق اقوام متحدہ بھی بھارت کے ظلم و جبر کے سامنے بے بس ہے ۔ مسئلہ کشمیر پر اسلامی وزرائے خارجہ کی قرارداد نہ صرف ایک جامع دستاویز ہے بلکہ بھارت کے خلاف ایک چارج شیٹ بھی ہے ۔او آئی سی نے اس قرارداد میں تسلیم کیا کہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان ایک بنیادی تنازعہ ہے جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا تو جنوبی ایشیاء میں امن کا قیام ممکن نہیں ۔اس قرارداد میں دنیا سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرے اس لئے کہ وہ بین الاقوامی قانون ، بین الاقوامی انسانیت قانون اور بین الاقوامی قراردادو ں کی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔پاکستان کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ پوری مسلم امہ نے اس کے موقف کے ساتھ اتفاق کیا ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اس وقت تک دونوں ملکوں کے درمیان تو کیا پورے خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں ۔5اگست کے فیصلے کے بعد پاکستان کا یہی کہنا ہے کہ بھارت نے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے اب پوری مسلم امہ نے پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کیا ہے جو کہ سفارتی سطح پر بہت بڑی کامیابی ہے ۔5اگست کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل دینے کا فیصلہ کیا ۔ سرکاری زبانوں کے بل کو نافذ کیا ۔ کسی بھی بھارتی شہری کی مقبوضہ جموں وکشمیر میں زمین اور جائیداد خریدنے کے قانون کو نافذکیا ۔ پاکستان اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام نے اس کی شدید مخالفت کی ۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ نے اپنی قرارداد میں بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تمام اقدامات کو واپس لیں جو کہ پاکستان اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کی ایک شاندار فتح ہے ۔او آئی سی کے وزرائے خارجہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کے ذریعہ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ،ریاستی سرپرستی میں جاری دہشت گردی ،جعلی مقابلوں ،سرچ اینڈ کارڈون کارروائیوں کے دوران غیر قانونی قتل وغارت گری اور اجتماعی سزا کی ایک شکل کے طور پر مکانات اور نجی املاک کو مسمار کرنے کی بھی مذمت کی ہے۔متفقہ قرار داد میں بے گناہ شہریوں کے خلاف بھارتی قابض فوج کی جانب سے پیلٹ گنوں کے استعمال کی مذمت ،بھارتی فوجیوں کے کشمیری خواتین کو ہراساں کرنے کی مذمت ، فوجی کریک ڈان کو مزید تیز کرنے اور اس غیر قانونی اقدام کو مزید آگے بڑھانے کے لئے موجودہ کوویڈ 19 کے بحران کا فائدہ اٹھانے کے الزامات ،یہ تمام وہ حقائق ہیں جو گزشتہ ایک برس سے پاکستان دنیا کے سامنے رکھتا آرہا ہے ۔ آج پوری مسلم دنیا نے پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کرکے مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کو پیغام دیا ہے کہ وہ ان کے مسائل اور تکالیف سے بے خبر نہیں۔اسلامی وزراء خارجہ کا بھارت سے یہ مطالبہ کہ او آئی سی کے خصوصی نمائندے ،فیکٹ فائنڈنگ مشن کی کشمیر میں جانے کی اجازت اور کشمیر پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی دو رپورٹوں کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے ،اس بات کا غماز ہے کہ ان کو اس مسئلے کی سنگینی کاا حساس ہے ۔او آئی سی کا یہ مطالبہ کہ بھارتی قبضے کے تحت کوئی بھی سیاسی یا انتخابی عمل حق خودارادیت کے استعمال کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کے موقف کی فتح ہے ۔پاکستان اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے باشندوںکا یہی بنیادی مطالبہ ہے کہ ان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے ۔ آج پوری مسلم دنیا نے یک زبان ہو کر ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا ہے۔پوری مسلم دنیا کی حمایت کے بعد پاکستان کو چاہئے کہ وہ اقوام متحدہ پر دبائو بڑھائیں اوران سے مطالبہ کریں کہ اپنی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کریں۔