مہنگائی کی میگا سپیڈ اور ترقیاتی کاموں پر ’’القط‘‘ لگانے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے‘ ان پر ایک چینل کے پروگرام میں سرسری سا تبصرہ ہو رہا تھا کہ اب پتھر کے دور میں جانے کی تیاری کریں۔حرف تسلی بھی تھا کہ آخر اس دور میں بھی تو لوگ خیر خیریت سے زندگی بسر کرتے تھے‘ اب کیوں نہیں ہو سکتا۔ لیکن کاش ایسا ہو سکتا۔ وہ دور آج کے دور سے اچھا تھا لیکن واپس نہیں آ سکتا۔ وہ کیا‘ جو دور بیتے ابھی محض چند عشرے ہوئے ہیں‘ اسے بھی واپس نہیں لایا جا سکتا۔ یہ تو ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ شہر چھوٹے تھے اور گھر بڑے‘ پھر دیکھتے ہی دیکھتے شہر پھیلنے اور گھر سکڑنے لگے۔ بے شک ایک دس بارہ فیصد طبقہ ایسا ہے جس کے پاس کنالوں اور اس سے بھی بڑھ کر ایکڑوں میں گھر ہیں۔ گھر کیا ہیں‘ منزل پہ منزل درجہ بدرجہ جنت کی تصویر کھینچی ہیں لیکن اکثریت کے گھر چھوٹے ہو رہے ہیں۔ آنگن غائب ہو گئے ہیں‘ کھلا آسمان بس اتنا ہی نظر آتا ہے جتنی کھڑکی اجازت دے۔ دیہات کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔ زندگی ہر جگہ کمرشل ہو رہی ہے۔ چند ہی عشرے پہلے 80فیصد سے زیادہ آبادی دیہات میں رہتی تھی‘ اب محض 65فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔ ایک آدھ عشرے میں اکثریت شہروں میں ہو گی اور بتانے کی ضرورت نہیں کہ دڑبے اور ماچس نما مکانوں اور فلیٹوں میں اور زمین پر کم۔ آسمان کو اٹھے ہوئے فلیٹوں میں زیادہ۔ ایک معلق زندگی جو آسمان پر جا نہیں سکتی‘ زمین پر ٹک نہیں سکتی۔ تو چند عشرے پیچھے کا زمانہ واپس کیسے آئے۔ گیس کی مثال لیجیے‘ چلیے اس کا کنکشن کٹوا دیتے ہیں‘ پھر متبادل کیا ہے؟ وہی لکڑی جو دو چار دہائیاں پہلے چولہوں میں سلگا کرتی تھی۔ یہ لکڑی لائیں گے کہاں سے۔ پہلے ہر چھوٹے شہر کے ارد گرد جنگل تھے۔ کچھ لوگ خود لکڑی کاٹ لاتے تھے‘ کچھ لکڑ ہاروں اور لکڑی کے بیوپاریوں سے خرید لیتے تھے۔ اب جنگل رہے نہ لکڑ ہارے۔ سب قصہ کہانی ہو گئے۔ چلیے‘ فرض کر لیجیے‘ لکڑی بھی مل گئی۔ جلائیں گے کہاں؟ اس کے لیے گھروں میں باورچی خانہ لازمی ہے۔ وہ کہاں رہا‘ اس کی جگہ کچن نے لے لی۔ کچن اور شے ہے۔ باورچی خانہ اور۔ بھلے سے دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ باورچی خانے کی چمنی سے دھواں اٹھا کرتا تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں کتنے ہی قصے انگریزی اور اردو ادب کے پڑھے اور کتنی ہی نظمیں جن کی ایک سطر یوں ہوا کرتی تھی کہ شام ڈھل گئی‘ گھروں کی چمنیوں سے دھواں اٹھنے لگا۔ لکڑی جلانے والا چولہا صرف باورچی خانے کے اندر ہی نہیں ہوتا تھا‘ اس کا ایک ہمزاد صحن میں بھی ہوتا تھا۔ اب صحن اکثریت کے ہاں تو رہے ہی نہیں۔ بارش دیکھنی ہو تو بھی گلی میں جانا پڑتا ہے۔ کاغذ کی کشتی بھی اب بس گلی میں چلتی ہے‘ گھروں میں نہیں۔ باورچی خانوں کے ساتھ ہی دیوان خانے اور بیٹھکیں بھی رخصت ہوئیں۔ بیٹھک کی جگہ ڈرائنگ روم نے لے لی۔ دونوں میں فرق ہے۔ بیٹھک اور دیوان خانے میں میزبان محبت اور چاہت سے مہمان کی طرف دیکھتا تھا‘ ڈرائنگ روم میں میزبان کی نظر دیواری گھڑی پر ہوتی ہے‘ پورے پندرہ منٹ ہو گئے‘ جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کیسا ملاقاتی ہے۔ نوٹ فرمائیے۔ اب گھروں میں مہمان نہیں‘ ملاقاتی آتے ہیں۔ کوئی مفید مطلب واسطہ ہو تو خوش آمدید ورنہ وہی کہ خدایا‘ آخر یہ جاتا کیوں نہیں‘ اسے آنے کی سوجھی ہی کیوں۔ چند عشروں سے ایک دو عشرے اور پیچھے چلے جائیں۔ بجلی نہیں ہوتی تھی‘ زندگی پھر بھی آرام سے تھی کہ ہر طرف جنگل تھے۔ کھلی زمینیں تھیں‘ درجہ حرارت ایسا نہیں تھا‘ گھروں میں صحن تھے اور کمرے ہوا دار‘ روشن دانوں اور کھلی کھڑکیوں والے۔ پنکھا ضروری ہے‘ اس بات کا پہلے کسی کو پتہ ہی نہیں تھا‘ یہ پتہ تو تب چلا جب پنکھے آ گئے۔ بہت حبس ہوا تو ہتھ پنکھی چلا کر خود کو ہوا دے لی ورنہ ہوا حیلے بہانے چلا کرتی تھی‘ کھڑی دروازوں اور روشن دانوں سے اندر آ جاتی تھی۔ پھر بغیر بجلی کے صرف گھر کے اندر کا‘ گرمی اور حبس ہی کا عذاب تو نہیں کہ چلئے‘ سہہ لیں گے‘ زندگی کا سارا نظام‘ سارا کاروبار ہی بجلی پر آ گیاہے۔ سردیوں میں سوئٹر گھروں میں بنے جاتے تھے‘ اب بجلی کے کارخانوں میں بنتے ہیں۔ ایک بڑا بحران بجلی کا آئے تو سبھی کو لنڈے کے سویٹر خریدنا پڑیں گے اور سبھی کو کیوں‘ لنڈے کا مال بھی سونے کے بھائو بکے گا‘ تین سو کنال کے گھر والے ہی خرید سکیں گے۔ یہ تو ایک مثال ہے ورنہ ہر شے بجلی پر آ گئی ہے۔ بجلی ہو تو ریسٹورنٹ والے کھانا سرد نہیں کرتے۔ کہ تنور بھی گیس کے ہیں یا بجلی کے۔ پہلے بنا پٹرول کے زندگی چلتی تھی ۔گائوں کا کسان گھر سے نکلا‘ کھیت جا پہنچا‘ شہر کا دکاندار اپنی دکان گھر کے قریب بناتا تھا۔ ملازمت کا خواہشمند گھر کے قریب ہی نوکری ڈھونڈ لیتا تھا۔ اب گھر ٹھوکر نیاز بیگ میں ہے تو نوکری مغلپورہ ہے اور شہروں میں لوگوں نے آبادیاں اس طرح بنائی ہیں کہ کسی کو کالونی کے بالکل وسط میں گھر ملے تو سڑک پر آنے کے لیے دو کلو میٹر پیدل چلنا پڑتا ہے‘ پھر بس پکڑو اور جہاں جانا ہے جائو۔ ملاوٹ والی غذا بھی بھولی بسری یاد بن گئی۔ اب تو ہر شے میں زہر ہے۔ دودھ میں زہر‘ پانی میں زہر‘ شہد میں زہر۔ ڈبوں میں بند کھانے والی ہر شے میں زہر‘ کولڈ ڈرنک میں زہر، بچوں کے فوڈ سپلمنٹ میں زہر اتنا زہر، کھا کھا کر جو نسلیں جوان ہوئی ہیں‘ وہ سائیکل چلانے کے قابل نہیں رہیں‘ اپنی موٹر سائیکل ہو یا پھر بس ہی بھلی۔ پیدل چلنے کے زمانے بھی گئے۔ جوانوں کو دیکھا‘ دوپہر میں چلنا پڑا تو سن سٹروک ہو گیا۔ چنانچہ بجلی گیس اور تیل کے بغیر اب زندہ رہنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ پتھر کا دور تو صدیاں ،ہزاریاں پیچھے رہ گیا۔ چند عشروں والی زندگی کے لوٹ آنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ کم مسائل اور زیادہ سکون والی وہ زندگی اب گزرا ہوا زمانہ ہے۔ پلٹ کر آنے کا بس خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ جو بھی ہو‘ اسی دور سے گزارا کرتا ہے‘ عمران خاں اور ان کے پیچھے کھڑے حضرات سے التجا کرنی ہے کہ حضور‘ زندگی کے دروازے یوں بند نہ کیجئے۔ ہم مر گئے تو آپ کے تین تین سو کنال کے گھروں کی رعنائی کے لیے خون پسینہ بہانے والا خام مال بھی مر جائے گا۔ پھر آپ عشرتوں کے میلے کہاں سے سجائیں گے۔ آپ کے چہروں کی سرخی کے پیچھے ان غریب ٹھیلے اور چھابے والوں کا خون ہے جو آپ ’’قبضہ‘‘ گروپ اور تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر گرا اور توڑ رہے ہیں۔ ان موٹر سائیکل سواروں کا پسینہ ہے جنہیں دو دو ہزار کے جرمانے صبح شام ہو رہے ہیں اور ٹریفک اہلکار کہتے ہیں‘ ہم کیا کریں‘ ہمیں اوپر سے حکم ہے کہ شام تک پانچ ہزار چالان کاٹنے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری بے چینی میں آپ کا چین‘ ہمارے دکھ میں آپ کا سکھ ہے لیکن ہم نہ رہے تو پھر آپ کہاں سے ’’تفریح‘‘ فرمائیں گے؟