وزیر اعظم عمران خان نے بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس سے صدارتی خطاب کے دوران عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ ماحول میں تیزی سے بڑھتے کاربن مادوں میں کمی لانے کو سر گرداں غریب ریاستوں کو فنڈز فراہم کرے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے بلین ٹری سونامی سمیت پاکستان کی ان کوششوں کا ذکر کیا جو ماحولیاتی بہتری کے لئے روبہ عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دولت مند ریاستیں ماحول میں کاربن مادوں کی بڑھتی مقدار کی ذمہ دار ہیں اس لئے ان ریاستوں کا فرض ہے کہ جو غریب ممالک اصلاح ماحول کے لئے کام کر رہے ہیں ان کیمعاونت کی جائے۔ اس اجلاس کی اہمیت اس امر سے اجاگر ہوتی ہے کہ چین کے صدر زی جن پنگ نے اپنا خصوصی پیغام ارسال کیا‘ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی پیغامات بھیجے جبکہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے سربراہ اور اہم قومی و بین الاقوامی شخصیات اس تقریب کا آن لان حصہ بنیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ اس نے معمولی حیثیت کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے خاطر خواہ محنت کی ہے۔ وزیر اعظم نے جہاں سے قرض مل سکتا تھا قرض لیا۔ جہاں انسانی بنیادوں پر امداد مل سکتی تھی وہاں امداد کے لئے کوشش کی۔ نئی منڈیوں اور خارجہ تعلقات سے مدد لے کر معاشی فوائد کی جہاں گنجائش تھی وہاں اس کے لئے جدوجہد کی۔ وزیر اعظم اس بات سے آگاہ ہیں کہ پاکستان جیسے کتنے ہی ملک صرف اس وجہ سے معاشی پسماندگی کا شکار ہیں کہ وہ اپنی خوشحالی کی بنیاد کلی طور پر زراعت یا صنعت پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اہم نکتہ فراموش کر دیا گیا ہے کہ مستقبل میں خوشحالی اور آسودگی کا مطلب انسان کے لئے موزوں ماحول ہو گا۔ عہد حاضر میں انسانی ضروریات نے ماحول کو تباہ کیا ہے۔ جنگلات کاٹے جا رہے ہیں‘ پانی بری طرح ضائع ہو رہا ہے۔ بلند عمارات اور گاڑیوں کی بھیڑ نے ہوا میں ایسے مادے شامل کر رکھے ہیں جو سانس کے راستے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر امراض پھیلا رہے ہیں۔انسانی ناسمجھی کا سب سے برا اثر کرۂ ارض کے درجہ حرارت پر پڑا ہے۔ چند سال پہلے دنیا کے دولت مند صنعتی ممالک کا اجلاس ہوا جس میں کرہ ارض کے اوسط درجہ حرارت میں 1.50سینٹی گریڈ اضافے کو قابل قبول قرار دیا گیا۔ زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ اس صنعتی عمل سے ہوا ہے جو مشینیں دن رات انجام دے رہی ہیں‘ ایندھن کے ذرائع بھی اس کی ایک وجہ بن رہے ہیں۔ لازم ہے کہ اب دنیا اپنی غلطیوں کو سدھارے اور ان متبادل منصوبوں کو بروے کار لانے میں مدد دے جن سے عالمی حدت کم ہو سکے۔ اس طرح گلیشئرز اور پانی کے دیگرمحفوظ ذخائر کو بچایا جا سکے گا۔ماحولیاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ورلڈ اکنامک فورم کے صدر بورج برینڈے نے کہا کہ عالمی حدت اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 2025ء تک دنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی مجموعی ترقی فطرت کے نقصان کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے، 2050ء تک پانی کی کمی کی وجہ سے دنیا کی پیداوار میں 50 فیصد تک کمی کا خدشہ ہے،ہمیں اپنے آنے والے وقت کے لئے فیصلے کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ 10 سال اپنے قدرتی سرمائے کے تحفظ کے لئے اہم ہیں، ورلڈ اکنامک فورم کے پلیٹ فارم سے 2030ء تک ایک ارب درخت لگائے جائیں گے۔ پاکستان نے ماحولیاتی اصلاح می خدمات کے بدلے بین الاقوامی قرضے معاف کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔دنیا میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ماحولیات کی بہتری کے لیے قرضے معاف کیے گئے مثلا بنگلہ دیش میں ٹروپیکل جنگلات کے تحفظ کے لیے قرضہ معاف کیا گیا ،گھانا میں ماحول دوست سیاحت کی مد میں اور کوسٹا ریکا میں نیشنل پارکس کے تحفظ کی مد میں قرض معاف کروائے گئے۔پاکستان بہت سے ایسے اقدامات کر رہا ہے جن کو عالمی برادری سراہ رہی ہے۔ پاکستان نے کورونا وبا کے مشکل دورمیں پروٹیکٹڈ ایریا انیشیٹو کے ذریعے مزید نیشنل پارک اور محفوظ علاقوں میں اضافہ کیا اور اس شعبے میں 85 ہزار کے قریب نوکریاں پیدا کی ہیں۔اربوں درختوں کی شجرکاری کا منصوبہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پیٹرول کے بجائے الیکٹرک گاڑیاں، صاف اور قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری جیسے بہت سے اقدامات عالمی توجہ حاصل کر چکے ہیں۔حکومت کے ساتھ ساتھ ماہرین بھی پر امید ہیں کہ اس حوالے سے عالمی برادری کو فیصلہ کرنے میں دشواری نہیں ہو گی۔ماہرینکا کہنا ہے کہ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک یا آئی ایم ایف جیسے عالمی ماحولیاتی ادارے قرضے معاف نہیں کر سکتے کیونکہ قرضوں کی رقم ان اداروں کی ملکیت نہیں ہوتی ہے، یہ قرضے اکثر کثیر القومی ہوتے ہیں اوریہ مالیاتی ادارے انھیں معاف کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ماحولیات کے حوالے سے جن قرضوں کی معافی کی بات ہو رہی ہے وہ دراصل پیرس کلب سے لیے گئے قرضے ہیں جن کی مالیت 11.54 ارب ڈالرز بنتی ہے۔ پیرس کلب سے لیے گئے قرضوں کے حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں یہ لچک موجود ہے کہ قرض کی نوعیت تبدیل کی جا سکتی ہے، معاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس قرض کو امداد میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اس رقم کو کسی ترقیاتی منصوبے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی تجاویز ٹھوس اور قابل عمل ہیں۔ جو ممالک صنعتی ترقی اور ایندھن کے زیادہ استعمال سے کسی قدر محفوظ ہیں انہیں جنگلات اگانے اور پانی کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔