خبروں کے مطابق ۔’’ چیئرمین عمران خان نے ، 25 جولائی 2018ء کے عام انتخاب میں حاصل کی گئی قومی اسمبلی کی پانچوں نشستوں میں سے ، اسلام آباد، لاہور ، بنوں اور کراچی کی چاروں نشستوں سے دستبردار ہونے اور میانوالی ؔکی نشست برقرار (اپنے پاس) رکھنے کا فیصلہ کِیا ہے ‘‘ ۔ خبروں کے مطابق ’’ اپنی انتخابی مہم کے دَوران خان صاحب نے میانوالی کے عوام سے وعدہ کِیا تھا کہ، مَیں میانوالی کی نشست اپنے پاس رکھوں گا‘‘۔ خُوشی کی بات ہے کہ ، اسلام آباد ، لاہور ، بنوں اور کراچی کے قائدین و کارکنان پاکستان تحریک انصاف نے ، اپنے چیئرمین کے اِس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کِیا۔ مجھے یاد ہے کہ’’  دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو ۔ لاڑکانہ، حیدر آباد، لاہور ، ملتان اور ڈیرہ اسمعٰیل خان سے، قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں سے امیدوار تھے اور وہ ، صِرف ڈیرہ اسمعٰیل خان کی نشست پر ( فضل اُلرحمن صاحب کے والدِ مرحوم) مفتی محمود صاحب سے ہار گئے تھے ۔

اُن دِنوں لاہور جنابِ بھٹو کی سیاست کا گڑھ تھا۔ لاہور حلقہ نمبر 3 سے ، بھٹو صاحب نے ’’فرزندِ اقبال‘‘ ۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کو ہرایا تھا۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے قائدین اور کارکنوں کا اصرار تھا کہ ’’ جنابِ چیئرمین! آپ لاہور کی نشست اپنے پاس رکھیں اور دوسری تین نشستوں سے مستعفی ہو جائیں‘‘۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک بانی رُکن سیّد یوسف جعفری نے   جنابِ بھٹو سے لاہور کی قومی اسمبلی کی نشست پاس رکھنے کا مطالبہ منوانے کے لئے بھوک ہڑتال بھی کردِی تھی۔

جنابِ بھٹو ۔ بھوک ہڑتالی کیمپ پہنچے اور سیّد یوسف جعفری سے ایک بھرپور جھپی ڈال کر بولے!۔ یوسف جعفری! میرا دِل بھی لاہور میں بستا ہے لیکن، تم نہیں جانتے کہ سیاست میں آبائی علاقے سے قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟ ‘‘۔ بھٹو صاحب نے جعفری صاحب کو جوس پلا کر اُن کی بھوک ہڑتال ختم کرادِی تھی۔ جنابِ بھٹو کو شکست دینے والے مفتی محمود صاحب کو (فضل اُلرحمن صاحب سمیت ) مفتی صاحب کی ’’ جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ کے کئی قائدین اور کارکنان مفتی محمود صاحب کو ( ایک لمبے عرصہ تک) عام جلسوں میں ’’ فاتحِ بھٹو، مفتی محمود‘‘ کے نعرے لگاتے رہے ۔25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں چیئرمین عمران خان کے دو ساتھیوں ۔ علی امین گنڈا پور اور یعقوب شیخ نے فضل اُلرحمن صاحب کو شکست فاش دے دِی لیکن ، پاکستان تحریک انصاف کے کسی بھی جلسے / تقریب میں ’’ فاتح فضل اُلرحمن ، عمران خان کا‘‘ نعرہ بلند نہیں کِیا گیا (اسے کہتے ہیں اخلاق!)۔

معزز قارئین!۔ وزیراعظم ہائوس۔ اسلام آباد میں ہے لیکن ، جب بھی کوئی وزیراعظم اپنے آبائی شہر یا گائوں کے نجی یا سرکاری دورے پر جاتا ہے تو ، اُس کے گھر کو یا اُس علاقے کے کسی "Rest House" کو  ’’وزیراعظم ہائوس‘‘ (دو نمبر) قرار دے دِیا جاتا ہے  اور وہاں وزیراعظم ، اُس کے وزراء اور افسران کو بھی باقاعدہ وہی "Protocol" دِیا جاتا ہے جو، اسلام آباد کے وزیراعظم ہائوس میں ۔ صدر محمد ایوب خان کے دَور میں گورنر مغربی پاکستان ، میانوالی ہی کے نواب آف کالا باغ ، ملک امیر محمد خان جب میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں اپنی ’’ریاست کالا باغ ‘‘ کے دورے پر جاتے تھے تو اُن کا وسیع و عریض گھر بھی وزیراعظم ہائوس ( دو نمبر) بن جاتا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’’ جب کبھی وزیراعظم عمران خان میانوالی کے دورے پر جاتے ہیں تو، وزیراعظم ہائوس ( دو نمبر ) کہاں بنایا جائے گا؟‘‘۔

 قدیم ہندوستان کے مختلف ادوار میں موجودہ ضلع میانوالی ؔکے مختلف نام تھے لیکن ، مغل بادشاہ اکبر کے دَور جب، حضرت غوث اُلاعظمؒ ۔حضرت شیخ عبداُلقادر جیلانیؒ کے قادریہ سِلسلہ کے ایک ولی سیّد میاںؔ علی ۔ بغداد (عراق) سے تشریف لا کر میانوالی میں آباد ہُوئے تو اِس علاقہ کا نام ’’ میاں علی والی‘‘ پڑ گیا اور پھر میانواؔلی !۔ ایک دَور میں میانوالی۔ ضلع بنوں کی تحصیل کی حیثیت سے ، ڈیرہ اسمعٰیل خان ڈویژن میں شامل تھا۔ بنوں کی قومی اسمبلی کی نشست پر تو ، خود عمران خان نے ، فضل اُلرحمن صاحب کے دستِ راست ( سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا) محمد اکرم درانی صاحب کو ہرایا۔ نواب آف کالا باغ ، ملک امیر محمد خان اپریل 1960ء سے ستمبر 1966ء تک گورنر مغربی پاکستان رہے۔  صدرایوب خان کے دورِ زوال میں ، عوامی شاعر (مرحوم) حبیب جالبؔ کی نظم کا ایک بند تھا…

عام ہُوئی، غنڈہ گردی! 

چُپ ہے ، سپاہی باوردی!

شمع نوائے ، اہل سخن! 

کالےؔ باغ نے گُل کردِی!

اور ہاں!۔ معز ز قارئین!۔ یہاں سپاہی باوردی ؔسے مُراد ۔ محکمہ پولیس کا سپاہی تھا۔ پاک فوج کا سپاہی نہیں! ۔ ستمبر 1965ء کی پاک، بھارت جنگ کے دَوران ، پاک فوج کے ہر سپاہی ؔ کی تعریف میں ، (مرحومہ) ملکہ ترنم نور جہاں کا گایا ہُوا یہ گیت تو، کئی سال تک گلیوں اور کوچوں میں گونجتا رہا ۔ جِس کا مُکھڑا (مطلع ) تھا …

میریا ڈھول سپاہِیا ، تَینوں ربّ دِیاں رکھّاں!

تیتھوں واری جاوَن ، میرے جیہاّں لَکھّاں !

مَیں نے تو، ضلع میانوالی کوتحریکِ پاکستان کے ( Gold Medalist) کارکن ’’ مجاہد مِلّت‘‘ مولانا عبداُلستار خان نیازی کے حوالے سے جانااور پہچانا ۔مولانا نیازی صاحب ، جب بھی میانوالی سے لاہور اور لاہور سے میانوالی آتے جاتے تو وہ ، سرگودھا میں اپنے دوستوں سے ملاقات کے لئے زیادہ تر ، سرگودھا میں تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلِسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد کے گھر قیام کرتے ۔ قاضی صاحب ہی نے 1962ء میں میرا مولانا عبداُلستار خان نیازی سے تعارف کرایا تھا۔ مَیں سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار تھا، جب مارچ 1965ء میں’’ بی۔ ڈی ۔سسٹم‘‘ کے تحت مولانا عبداُلستار خان نیازی ۔ گورنر امیر محمد خان کے بیٹے ملک مظفر خان سے بہت ہی کم ووٹوں سے ہار گئے تھے ۔

 مولانا صاحب سرگودھا آتے تو، مختلف سرکاری ایجنسیوں کے لوگ ، اُن کی نگرانی کرتے لیکن ، وہ کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے ۔ خوبصورت اور خوب سیرت عاشقِ رسولؐ، مولانا عبداُلستار خان نیازی نے اپنا طُرّہ ، کسی بھی حکمران کے آگے جھکنے نہیں دِیا۔ 11 جولائی 1973ء کو مَیں نے لاہور سے اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا۔تو مولانا عبداُلستار خان نیازی اپنے چند عقیدت مندوں کو ساتھ لے کر مجھے مبارک باد دینے آئے اور 30اگست 1996ء کو لاہور میں میری بڑی بیٹی منزہ کی شادی میں بھی تشریف لائے ۔ مولانا صاحب کی دُعائوں سے کینیڈا میں "Settle"میری بیٹی منزل خلیل احمد خان اپنے شوہر کے ساتھ دو بار حج کی اور اپنی بیٹی اور دونوں بیٹوں کے ساتھ تین بار عُمرے کی سعادت حاصل کر چکی ہیں ۔ مولانا صاحب جب تک حیات رہے ، میرا اُن سے عقیدت کا رشتہ قائم رہا، جب بھی کسی سیاستدان / مذہبی لیڈر نے اُن کی شان میں گستاخی کی تو، مَیں نے اپنے کالم میں اُس کی خوب خبر لی۔ 

میانوالی کے نیازی اور خٹک قبیلوں کے علاوہ اعوان برادری کے مسلمانوں نے زیادہ تر قادریہ اور چشتیہ سِلسلہ کے اولیائے کرام ؒ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔قیام پاکستان میں اہل سُنت اور اثنائے عشری قائدین ، سجادہ نشینوں اور گدّی نشینوں نے قائداعظمؒ کی حمایت کی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ پاکستان کے جن عُلماء ، سجادہ نشینوں اور گدّی نشینوں نے ، ’’کانگریسی مولویوں کی باقِیات‘‘  ’’تحریکِ پاکستان‘‘ کے مخالفین اور سابق کرپٹ حکمرانوں کو ہرانے کے لئے عمران خان کی حمایت کی ہے وہ ، اُن سے بہت سی توقعات رکھتے ہیں ۔ عمران خان کے ایک ساتھی ۔ معروف گلوکار جناب عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے بہت پہلے ، نہ جانے اپنی طرف سے یا عمران خان کی طرف سے لندن ( پنجابی میں وَلیت) میں بسنے والی کسی خاتون کو مخاطب کر کے گایا تھا کہ …

قمیض تیری کالی ، تے سوہنے پُھلّاں والی !

بھاویں وَسیں تُوں وَلیت،

اَساں کرنی نئیں رَیت !

تَینوں لَے کے جاناں میانوالی!

معزز قارئین!۔ میرے نزدیک ، آج عیسیٰ خیلوی صاحب کے اِس گیت کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ وزیراعظم عمران خان !  ’’مادام وزارتِ عظمیٰ ‘‘ ( Madame  Premiership) کو اسلام آباد سے میانوالی بلکہ ، پاکستان کے ہر ضلع کے مفلوک اُلحال عوام کی بھلائی کے لئے ، اُن کے پاس لے جائیں !۔