چند سالوں میں آٹھ مارچ کے پُر بہار دن کو ایک مخصوص بلکہ مشکوک طبقے کی جانب سے مخصوص مقاصد کے لیے ہونے والے عورت مارچ نے اس مقدس صنف کو کوئی خاص فائدہ تو پہنچایا یا نہیں، البتہ ان کے اصل مسائل سے نظر ضرور ہٹا دی ہے۔نجانے یہ کس قبیل کے لوگ ہیں ؟ کون ان کی پُشت پناہی کرتا ہے کہ یہ کسی مقررہ اشارے پر اچانک اپنی اپنی بلوں سے برآمد ہو کر کسی عجیب و غریب ازم، انوکھے ایجنڈے، نادر مسئلے، بلکہ نان اِیشو پہ دھما چوکڑی مچا کے، میڈیا مزاج لوگوں کو ڈگڈگی پہ لگا کے خود ایک دم غائب ہو جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں ایسی ہی خواتین کے پیشِ نظر ہم نے لکھا تھا: ’عورت گواہی میں آدھی، آگہی میں پوری، گہرائی میں دگنی ہوتی ہے۔‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت ہماری سوسائٹی کی عمارت کا سب سے مضبوط ستون ہے۔اس کی اہمیت ہبوطِ آدم سے آج تک مسلّم و مکرم ومؤقر و معتبر ہے۔ دنیا بھر میں اس کی تذلیل ہوئی لیکن دینِ اسلام نے اس کے جو حقوق وضع کیے، وہ قابلِ رشک ہیں۔ شاعرِ مشرق تو بھلے وقتوں میں فرما گئے تھے کہ : ع وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ لیکن ہر اہم بات کی طرح اس حقیقت کو سمجھنے سمجھانے میں بھی ہم نے ایک صدی کی تاخیر کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں زندگی کے بہت سے شعبے اس کے وجود کی مہک سے محروم ہیں۔لمحۂ موجود میں بھی خواتین کا ایک بڑا طبقہ گول روٹی پکانے اور زردی کو توڑے بغیر انڈا فرائی کرنے جیسی ابتدائی، مقامی اور ہنگامی مشقوں میں پھنسا ہوا ہے۔ تازہ ترین سروے کے مطابق اس وقت وطنِ عزیز میں پچاسی ہزار (۸۵۰۰۰) طالبات، لاکھوں روپے کے اخراجات اور رنگا رنگ میڈیکل کالجوں کے نخراجات برداشت کر کے اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کیے رشتے کی تلاش یا رشتوں کے وشواس کی خاطر پروں میں چونچ دبائے بیٹھی ہیں۔ جا بہ جا یہ مشقِ ستم بھی دیکھنے میں آئی کہ اچھے رشتے کی تلاش میں نرمل، کومل سی لڑکیاں اپنی زندگی کے کتنے ہی سال، وبال اور خود کو بے حال کر کے لیکچرر، ڈاکٹر، انجنیئر حتّی کہ جج، مزید حتّی کہ سی ایس پی افسر بن گئیں، بعض نے کچھ نہ کچھ تجربہ بھی حاصل کر لیا ۔ بعضوں نے تو اس مردانہ معاشرے میں اپنی فرض شناسی اور مشکل سے مشکل امور کی ادائیگی کی دھاک بھی بٹھا لی لیکن شادی کے اگلے ہی روز ساس، سسر یا بقلم خود میاں حضور(جو ایک عرصہ سے ذہین،حسین، باتمکین، پڑھی لکھی اور برسرِ روزگار بہو/دلہن کی تلاش میں مارے مارے پھرے تھے ) اچانک فلمی کردار بن کے سامنے کھڑے ہو گئے کہ: ’ ’یہ شادی نہیں ہو سکتی!!!‘‘ اگر کسی عاقبت نا اندیش دلہن نے جی کڑا کر کے انھیں یاد دلانے کی ہمت کر لی کہ حضور! یہ شادی تو ہو چکی ہے …تو فرمان جاری ہوتا ہے کہ: ’بدتمیز! زبان چلاتی ہے … اور فرض کرو اگر ہو بھی چکی ہے تو مزید ایک قدم آگے نہیں چل سکتی … آج تمھیں فیصلہ کرنا ہوگا ، دل یاشکم؟ ‘‘ ایسے میں بے چاری نئی نویلی دلہن(نئی کم، نویلی زیادہ) دل مسوس کے رہ جاتی ہے۔وہ جانتی ہے کہ اگر دل کے حق میں فیصلہ دیاتو مونچھوں والے شوہر کو تین طلاقوں والا رٹا رٹایا فلمی ڈائیلاگ بھی دُونی کے پہاڑے کی طرح یاد ہے۔ لیکن وقت کا پہیہ جیسے جیسے آگے رینگتا گیا ، جہالت کے بے کنار صحراؤں میں تعلیم اورشعور کی ہولے سے چلنے والی بادِ نسیم نیز انٹرنیٹ اورمیڈیا کے جھکڑ جھولوں سے تبدیلی کی لہر تیز سے تیز تر ہوتی گئی اور بہار کے یہ پھیکے پڑتے رنگ رفتہ رفتہ اجاگر ہونا شروع ہوگئے، جس سے کلیوںپہ نکھار اور بیمار کو بے وجہ قرار آتا چلا گیا۔زندگی کے ہر شعبے میں ان کے دم قدم سے چہل پہل دکھائی دینے لگی۔شروع شروع میں ان کو دفاتر میں شو پیسوں کی طرح سجایا گیالیکن رفتہ رفتہ زندگی کا ہر شعبہ ، ہر ادارہ، ہر محکمہ ان کی موجودگی کے احساس سے سرشار ہوتا چلا گیا۔ پہلے پہل اس لطیف مخلوق نے تعلیمی میدانوں میں اپنی برتری کے جھنڈے گاڑے، دیکھتے ہی دیکھتے تنظیمی میدانوں میں بھی ان کی کارکردگی کا طوطی بولنے لگا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چند سال قبل میرے آبائی شہر شیخوپورہ میں سوائے ڈسٹرکٹ پولیس افسر کے، نہ صرف ضلع کی ہر قابلِ ذکر پوسٹ اسی طبقے کے وجودِ مسعود سے مزین تھی بلکہ جملہ معاملاتِ نظم و نسق ماضی کی نسبت بہتری کی چغلی کھا رہے تھے۔ مختصر یہ کہ ہوتے ہوتے چہار جانب ان کی اہلیت و قابلیت کا سکہ چلنے لگا۔ اس وقت جو مکروہ ہندووانہ رسمیں اور برائیاں اس طبقے کے لیے سمِ قاتل کا درجہ اختیار کر چکی ہیں، ان میں جہیز اور بارات جیسی لعنتیں ہیں، جو ہمارے معاشرے میں کرپشن اور ڈپریشن کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ لوگوں کو بتانے ،جتانے بلکہ باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ نہ صرف ان رسوم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ہندوازم کے پرچار اور ہمارے گھرانوں میں بے برکتی کا سبب ہیں۔ اسلام نے بیٹیوں کا جائیداد میں حصہ مقرر کیا ہے، جس کو ہم ظالمانہ طریقوں سے غصب کیے بیٹھے ہیں۔ پھر تعلیمی اداروں میں بچیوں کوضروری سہولتیں، اچھی تربیت اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک خاتون استاد سے ، جس نے لاہور کی ایک معروف جامعہ سے تازہ تازہ ڈاکٹریٹ کی سند پائی اور اس وقت خود بھی ایک جامعہ ہی میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی تھی، ہم نے باتوں ہی باتوں میں دریافت کیا کہ محترمہ ذرا سچ سچ بتائیے، وہاں کا ماحول کیسا ہے؟ ہم نے دیکھا کہ خاتون کے چہرے پہ سنجیدگی اور رنجیدگی کی تہ دبیز ہوگئی اور اس نے بہ مشکل یہ جملہ ادا کیا کہ: ’’سر سچی بات تو یہ ہے کہ اب وہاں استاد نہیں مرد بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ یعنی ، جو اُن کی مردانگی کی تسکین کرے گا، وہی اپنی زندگی رنگین کرے گا۔ قبل ازیںاس سلسلے میں سندھ اور جنوبی پنجاب کی مختلف جامعات سے متعلق آئے دن افسوس ناک اور خوف ناک خبریں سماعتوں کو گراں بار کرتی رہتی ہیں کہ اساتذہ کا ایک حلقہ اعلیٰ درجاتی ڈگریوں کے عوض طالبات کی عصمتوں کے درپے ہے۔ تازہ ترین واقعہ جام شورو یونی ورسٹی میں عربی اور اسلامیات جیسے مقدس شعبے سے وابستہ استاد کا ہے۔ متعدد طالبات کی خود کُشی کی خبریں بھی اخبارات اور میڈیا کی زینت بنیں۔ بعض متفکر طالبات نے تو اس معاملے کی تحقیق و تفتیش کے لیے اعلیٰ عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ بے شمار لوگوں نے تو ایسے ہی اندیشہ ہائے دور و دراز کے پیشِ نظر با دلِ نخواستہ اپنی بچیوں کے تعلیمی کیرئیر کے انقطاع ہی میں عافیت سمجھی۔ ان حالات میں خواتین کے نان اشوز پہ ڈرامے، ہنگامے اور مارچ کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ یہ تو وہی بات ہو گئی،بقولِ شاعر: مسائل اور تھے مگر دل کا آنا عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے