برطانیہ میں ملکہ ایلزبتھ اوّل کا دَور جو 17 نومبر 1558ء سے شروع ہو کر 24 مارچ 1603ء تک 45 سالوں پر محیط ہے، معاشرے کے اخلاقی زوال اور بے خطر جنسی بے راہ روی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ایک مادر پدر آزاد نشاۃِ ثانیہ کو درباری اشرافیہ نے برطانوی معاشرے پر زبردستی نافذ کیا، جس کے ردِ عمل میں ایک شدت پسند مذہبی شخصیت آلیور کرامویل (Oliver Cromwell) کا ظہور ہوا، جو اس بات پر یقین بلکہ ایمان رکھتا تھا کہ لوگوں کو انجیل کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔ اس نے ایک ذاتی فوج ترتیب دی اور سول وار میں اس فوج کا پلڑا اس قدر بھاری رہا کہ انہوں نے بادشاہ چارلس اوّل کو محل سے نکالا، مقدمہ چلایا اور 30 جنوری 1649ء کو وائٹ ہال پیلس کے سامنے تیز دھار چھرے (گیلوٹن) سے اس کی گردن کاٹ دی۔ اس دَور کو برطانیہ کی تاریخ میں خالص مذہبی (Puritans) کا دَور کہا جاتا ہے، جو سولہویں اور سترھویں صدی تک بزورِ قوت مسلط رہا اور معاشرے پر ایک سخت گیر مذہبیت چھائی رہی۔ اسی طرح ڈیورانٹ نے انقلاب ِ فرانس کے دس سالوں کی مثال بھی دی ہے۔ 5مئی 1789ء سے 9 نومبر 1799ء تک والٹیئراور روسو جیسے آزاد خیال اور مذہبی اقدار سے نفرت کے علمبردار مفکرین کی تعلیمات سے فرانس میں جو انارکی پیدا ہوئی۔ اس میں خاندان، اخلاقیات اور معاشرت کی ساری حدیں مسمار ہو گئیں، لیکن آزاد شہوت رانی کے ردِعمل میں نیپولین جیسا سخت گیر شخص حکمران ہوا جسے آج بھی یورپ میں پدری سری یعنی خالصتاً مرد کی حکمرانی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ہی جب بائرن اور شیلے کی رومانوی شاعری لوگوں کو مذہب سے بیگانہ کر رہی تھی جس کے نتیجے میں پرنس آف ویلز اور پھر بادشاہ جارج چہارم کی نشاط انگیززندگی کا آغاز تو ہوا، مگر فوراً ہی ردِعمل کے طور پر ملکہ وکٹوریہ کے عہد کی شائستگی اور مذہبی اخلاقیات لوٹ آئی۔ ڈیورانٹ کے تاریخی تجزیے کا سارا لبِ لباب یہ ہے کہ صدیوں سے انسان کے وجود میں اخلاقیات ایک جاندار قدر کے طور پر ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور جو کوئی اسے کچلنے کی کوشش کرتا ہے، لوگ بزورِ طاقت اسے دوبارہ نافذ کرنے کی ضرور کوشش کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پراس نے ایک پیش گوئی بھی کی ہے۔ اس نے کہا کہ اس وقت دُنیا جس اخلاقی زوال،جنسی بے راہ روی، خاندانی ٹوٹ پھوٹ اور شہوانیت کے بے خطر طوفان میں ڈوبتی چلی جا رہی ہے اور یہ ایک عالمی منظر نامہ بن چکا ہے، اس کا اندازہ تھا کہ ہمارے بچوں کے پوتے شدت پسند مذہبی ضرور ہوں گے۔ ول ڈیورانٹ آج سے ٹھیک چالیس سال پہلے دُنیا سے رخصت ہوا تھا۔ ایک تاریخی اندازے کے مطابق چالیس سالوں کے بعد تیسری نسل دُنیا میں نمودار ہوتی ہے۔ یعنی اس وقت 2021ء میں ول ڈیورانٹ کے پوتوں کی نسل دُنیا میں موجود اور اس کے پڑپوتوں کی نسل جوانی کے موسمِ بہار میں ہونی چاہئے۔ 1981ء میں مرنے والے ڈیورانٹ نے دُنیا بھر میں پھلتے پھولتے، پروان چڑھتے ہوئے جس عالمی معاشرے کو دیکھا تھا، اسے نظر آ رہا تھا کہ ایک دن یہ حقوقِ انسان، حقوق نسواں، جنسی آزادی و اختلاط کے کھوکھلے تصور پر قائم جدید معاشروں میں 2020ء کے آس پاس ہرطرف ایسے شدت پسند لٹھ مار گروہ ضرور پیدا ہو جائیں گے جو ان معاشروں کو واپس خاندانی زندگی اور اخلاقی پاکیزگی کی طرف بزورِ قوت لوٹا دیں گے۔ پاکستان کے معاشرے نے جس تیزی کے ساتھ اس زوال کی جانب اپنا سفر طے کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ضیاء الحق کی سخت گیر مصنوعی مذہب پسندی نے اس کی موت کے بعد ہی دَم توڑ دیا تھا۔آہستہ آہستہ معاشرے نے اس مصنوعی غلاف کو اُتار پھینکا اور پھر پرویز مشرف کی روشن خیالی اور نائن الیون کے واقعے نے اس پہیے کو اس قدر تیزی سے گھمایا کہ چند ہی سالوں میں وہ تمام طبقات جو اسلام، مذہب یا تہذیبی اخلاقیات سے وابستہ تھے، انہیں دہشت گردی اور شدت پسندی کا مجرم گردانتے ہوئے اس قدر دیوار سے لگایا گیا کہ ان لوگوں کو ایک مستقل گالی بنا دیا گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے گٹھ جوڑ نے پاکستان میں زبردستی ایک ایسے شہوت پرست، ہیجان انگیز معاشرے کی تخلیق کی جس میں ڈراموں سے لے کر سٹیج ڈانس تک اور ٹاک شوز سے لے کر ٹی وی کے تفریحی پروگراموں تک اخلاق باختگی کے سیلاب میں بہہ گئے۔ مقدس رشتوں کی آپس میں محبت کی کہانیاں اور شادی شدہ افراد کی رومانوی دھوکہ دہی ڈراموں کے موضوعات بن گئے۔مغربی ممالک کے سرمایہ سے ہزاروں این جی اوز سے ایک سول سوسائٹی تخلیق کی گئی جس کی بیس سالہ محنت ’’عورت مارچ‘‘ کے غلیظ ترین نعروں کی صورت برآمد ہوئی۔ فحاشی اور عریانی کا وہ سیلاب آیا کہ جس کی نظیر مغربی معاشروں میں بھی نہیں ملتی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس فحش طوفان سے جنم لینے والے مغربی معاشروں میں افراد کے ہیجان انگیز پاگل پن کو دُور کرنے کے ہزار سامان مہیا ہوتے ہیں۔ نائٹ لائف کی ایک رنگا رنگ بہار،جو جسم فروشی سے لے کر برہنہ ڈانسوں، مساج پارلروں، جنسی کھلونوں اور لاتعداد دیگر تسکین آمیز سہولیات سے آراستہ ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی معاشرے میں میڈیا کی بے لگام فحش یلغار تو ٹیلی ویژن سے موبائل فون تک ہتھوڑے کی طرح دماغوں پر برستی ہے مگر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شہوت بھرے ہیجان انگیز پاگل پن کا کوئی علاج موجود نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسے جنونی ہر جگہ دندنانے لگے اور شہر شہر اور گلی گلی بچوں اور بچیوں پر جنسی حملے ہونے لگے۔ عورتیں غیر محفوظ ہوتی چلی گئیں۔ وہ تمام اصطلاحات جن کا ہماری سماجی زندگی سے کوئی واسطہ تک نہ تھا زبان زدِعام ہو گئیں جیسے بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ، کورٹ شپ، یہاں تک کہ بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنے یعنی "Living Together" کو بھی قبولیت حاصل ہوتی چلی گئی۔آج یہ عالم ہے کہ آپ کسی بھی میڈیا نما پلیٹ فارم پر اس سارے معاشرتی زوال کے تجزیے میں اسلام کی مذہبی اخلاقیات کی بات کرنا شروع کریں تو آپ کو فوراً عورت دُشمن "Misogynist" کہہ کر گالی بنا دیا جائے گا۔ گزشتہ دنوں جو تین اہم واقعات ہوئے ہیں، وہ تینوں ایک شہوت پرست معاشرے کے آخری درجے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک لڑکی اپنے ’’بوائے فرینڈ‘‘ کے گھر کو محفوظ ترین جگہ تصور کر کے اس سے مسلسل ملتی ہے اور اس پر مکمل بھروسہ کرتی ہے لیکن جنون کے عالم میں وہ اسے قتل کر دیتا ہے۔ ایک جوڑا اپنی عیاشی کیلئے ایک کمرہ کرائے پر لے کر دادِ عیش دینا چاہتا اور سمجھتا ہے کہ یہ سب سے محفوظ مقام ہے لیکن پکڑا جاتا ہے اور بلیک میل ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک ٹک ٹاک والی لڑکی اپنے مداحوں کو بے ضرر سمجھتے ہوئے انہیں مینارِ پاکستان بلاتی ہے اور اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ ان مداحین میں جنسی ہیجان کی بجلیاں بھری ہوئی ہیں۔ ان تین واقعات کے دوران اگر کسی شخص نے اس ساری غلاظت کی تشریح کرنے کیلئے میڈیا، سول سوسائٹی، حکومت اور خاص طور پر مرد مخالف خواتین کی تحریک پر بات بھی کرنا چاہی تو اسے اجازت تک نہ مل سکی، جس نے کر لی اسے گالیوں سے نوازا گیا کہ یہ شخص شکار یعنی (Victim) جو مظلوم ہے اس کے خلاف بولتا ہے۔ حالانکہ اصل معاملہ یہ ہے۔ ان تینوں قصوں میں شکار (Victim)کی اس قدر اخلاقی ’’برین واشنگ‘‘ کر دی گئی تھی کہ وہ بیچاریاں خودبخود اپنی مرضی سے شکاری کی جھولی میں بخوشی آ کر گر جاتی ہیں۔ ایسی حالت میں جرم کی نوعیت اور کیفیت بہت ہی سنگین ہو جاتی ہے۔ ایک عورت جسے مردانہ معاشرے سے بغاوت سکھا کر یہ درس دیا گیا ہو کہ تم اپنے پہناوے، اپنے رویے اور اپنے خدوخال سے ’’غالب‘‘ (Dominating) نظر آئو، تم نے صدیوں پرانی زنجیریں توڑنی ہیں، تم نے اس پدری سری نظام کا خاتمہ کرنا ہے۔ پھر اس ساری جدوجہد اور سارے انقلاب کا صرف اور صرف ایک ہی نکتہ اظہار بنا دیا جائے اور وہ جنسی معاملات میں اخلاقیات کا دامن تار تار کر کے خاندانی، معاشرتی، مذہبی اور ذاتی اخلاقی حدود کے لباس کو اُتار پھینکنا ہو تو پھر اس خوفناک صورت حال سے وہی کچھ برآمد ہوتا ہے جسے ہم آج بھگت رہے ہیں۔ (جاری ہے)