رب ذوالجلال کا شکر واجب ہے کہ جس نے پہلے ہی رائونڈ میں مملکت خداداد پاکستان کو اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن پر فوجی، فضائی اور اخلاقی برتری عطا کی ہے۔ تاریخ کا یہ سبق یاد رکھئے کہ دنیا کی کوئی فوجی و مادی قوت اخلاقی قوت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ جناب عمران خان اپنی عسکری و اخلاقی برتری ثابت کرنے کے بعد امن امن پکار رہے ہیں مگر دوسری طرف نریندر مودی ابھی تک غیظ و غضب میں پھینکار رہے ہیں۔ نئی دہلی میں سائنسدانوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ لوگ لیبارٹریوں میں پہلا پائلٹ پراجیکٹ کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ابھی پاکستان کے خلاف ایک پائلٹ پراجیکٹ پورا کیا ہے لیکن ابھی اصل کرنا ہے پہلے تو پریکٹس تھی۔ مودی صاحب اپنے سائنسدانوں سے یہی پوچھ لیتے۔ کہ اس ’’اصل‘‘ کے کیا کیا ناقابل تصور بھیانک نتائج ہوسکتے ہیں۔ اگر مودی صاحب، جیساکہ خبریں ہیں، بدھ اور جمعرات کی شب ایک میزائل پاکستان پر داغ دیتے اور واپسی طور پر پاکستان ایک بٹن پر ہاتھ رکھ دیتا تو پھر تو چل سو چل ہوتا اور دما دم مست قلندر ہوتا۔ شیکسپیئر نے اپنے شہرہ آفاق ڈرامے جولیس سیزر میں لکھا تھا ’’اے قوت فیصلہ تو بھاگ کر وحشی درندوں کے پاس چلی گئی ہے اور انسان اپنی عقل و دانش کھو بیٹھے ہیں۔‘‘ قرآن حکیم کی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جسے حکمت دی گئی گویا اسے خیر کثیر عطا کر دیا گیا۔ جناب رسالت مآب ﷺ انسانی حکمت و دانائی کی معراج پر فائز تھے مگر تاجدار مدینہ کو جب کوئی مہم درپیش ہوتی تو اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا کرتے۔ غالباً اپنی امت کو یہ درس دینا مطلوب و مقصود تھا کہ اپنے معاملات باہم صلاح مشورے سے طے کیا کرو۔ پلوامہ واقعے سے لے کر اب تک عمران خان نے جو اقدامات اٹھائے اور بیانات دیئے وہ اجتماعی دانش کا شاہکار لگتے ہیں۔ تاہم بھارت کو براہ راست عمران خان کی طرف سے بار بار امن اور مذاکرات کی پیشکش اور مودی سے ٹیلی فون پر گفتگو کی کوشش بہت Overdoing لگتی ہے۔ ہمارے کئی بقراطی سوچ رکھنے والے دانشور کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو فوج پر زرکثیر خرچ کرنے اور ایٹم بم بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر آج ہماری فوج بھارت سے جذبے اور مہارت میں اعلیٰ و ارفع نہ ہوتی اور ہمارے پاس وہ ہتھیار نہ ہوتے جن ہتھیاروں پر انڈیا اترایا کرتا تھا تو پھر اللہ معاف کرے مودی جیسے بھارتی حکمران ہمارا کیا حشر کرتے۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا ع عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے پاس ’’عصا‘‘ ہے۔ اس لیے ہماری ’’کلیمی‘‘ کی گونج ساری دنیا میں سنی جا رہی ہے۔ رابرٹ فسک ایک برطانوی صحافی ہیں جو کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ کے حالات پر برطانوی و امریکی جرائد میں شاندار مضامین لکھ رہے ہیں۔ رابرٹ فسک بیانگ دہل حق بات کہتے ہیں اور کسی لابی سے ڈرتے ہیں نہ کسی دبائو یا لالچ میں آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے تازہ ترین مضمون میں لکھا ہے کہ انڈیا نے بالاکوٹ میں پاکستان کے خلاف اسرائیل کے بنائے ہوئے سمارٹ بم استعمال کئے ہیں۔ 2017ء میں انڈیا اسرائیلی اسلحہ کا بہت بڑا خریدار تھا۔ بھارت نے اسرائیل سے 530 ملین پائونڈ کا اسلحہ خریدا جس میں ایئر ڈیفنس، ریڈار سسٹم، کئی طرح کے خطرناک ہتھیار اور فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل شامل ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کی گہری دوستی کا بنیادی سبب مسلم دشمنی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ہمارے کچھ عرب بھائی اعلانیہ اور کچھ خفیہ اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور خطے میں کئی اپنوں سے دور ہو چکے ہیں۔ ان عرب ممالک کی نظروں سے اسرائیل کی اسلام دشمنی اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ جب طبل جنگ بجنے لگتا ہے تو زندہ اور باشعور قوموں کو اپنے ماضی میں جھانکنے اور اپنے حال اور مستقبل کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف نریندر مودی بلکہ اپنی قوم کو یاد دلایا کہ ٹیپو سلطان شہید ہمارے ہیرو ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں بڑے بڑے سلاطین جہاں بانی و حکمرانی کے شاندار جلوے دکھاتے رہے۔ اگرچہ ٹیپو سلطان نے غزنوی کی طرح کسی بڑے سومنات کو نہیں توڑا، خلجی کی طرح شمال سے جنوب تک سلطانی کے جوہر نہیں دکھائے، اکبر کی طرح بزم شہنشاہی نہیں سجائی اور شاہ جہان کی طرح ایوان سلطنت کو شان و شوکت نہیں بخشی۔ مگر ٹیپو کی عظمت و شہرت وسعت سلطنت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان اعلیٰ مقاصد کی وجہ سے ہے جن کی خاطر ٹیپو نے اپنی جان قربان کردی۔ اٹھارویں صدی میں جنوبی ہندوستان کا خطہ دکن انگریز اور فرانسیسی مہم پسندوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ دکن کی آزاد اور خودمختار ریاستوں کی خودمختاری بری طرح پامال ہورہی تھی۔ کسی ہندو یا مسلم حکمران میں یہ دم خم نہیں تھا کہ وہ مغرب کے ان لٹیروں کو دکن کے ساحلوں سے سمندر میں دھکیل دیتا۔ ان حالات میں حیدرعلی نے میسور کے ایک معمولی راجواڑے کو ایک خودمختار اور مضبوط ریاست میں بدل دیا۔ حیدر علی مرہٹوں اور انگریزوں سے ساری عمر لڑتا رہا۔ حیدر علی کے بعد اس کے بیٹے ٹیپو سلطان نے جب باپ کی چھوڑی ہوئی چھوٹی سی ریاست کی باگ ڈور سنبھالی تو اسے ورثہ میں قصر و ایوان نہیں ملے بلکہ کرناٹک اور میسور کے تھکا دینے والے میدان جنگ ملے۔ ٹیپو کو بیک وقت تین دشمنوں کا سامنا تھا۔ ایک مرہٹے، دوسرا نظام دکن اور تیسرا انگریز۔ ٹیپو چاہتا تو وہ انگریزوں کو حلیف بنا کر نظام اور مرہٹوں پر فوج کشی کردیتا مگر اس کی غیرت اپنے ذاتی مفاد کے عوض پورے ہندوستان کو انگریزوں کے ہاتھ فروخت کرنے کے لیے راضی نہ ہوئی۔ وہ انگریزوں کے اصل ارادوں کو بھانپ چکا تھا۔ ٹیپو کا اصل مقصد کیا تھا؟ اس کا اصل مقصد تھا ہندوستان کی آزادی، ملت اسلامیہ کی سربلندی اور ہندوستان میں امت مسلمہ کی یک جہتی۔ شیر دل ٹیپو بیک وقت مرہٹوں، نظام اور انگریزوں سے جواں مردی سے لڑتا رہا اور دشمنوں کو بے بس کرتا رہا مگر ایک معرکے کے دوران عین موقع پر اسے میر صادق جیسے چند غداروں نے دھوکا دیا اور ٹیپو سرنگا پٹم کے دروازوں پر تن تنہا بھوکا پیاسا دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا اور یوں ہندوستان کے کروڑوں انسانوں پر انگریزوں کی غلامی کی مہر لگادی گئی۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے جب عمران خان نے ٹیپو سلطان کو اپنی قوم کا ہیرو قرار دیا تو اس کا مطلب ہندوستان کو یہ بتانا تھا کہ ہم جان تو دے سکتے ہیں مگر ہم غلامی ہرگز قبول نہیں کرسکتے۔ سلطان ٹیپو کا یہ قول تو ہماری قوم کے بچے بچے کو ازبر ہے۔ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘