آج کی نوجوان نسل سدھیر ، سنتوش کمار،اعجاز اور حبیب کو کیا جانتی ہوگی کہ وہ تو محمد علی ، ندیم ، شاھد اور وحید مراد سے بھی شاید ہی آشناہو۔ ایک تابناک فلمی دنیا تھی ہماری۔ آپ سٹوڈیو جاتے ، کہیں کسی کونے میں موسیقار بخشی وزیر اور لفظوں کا جادو گر تنویر نقوی "جدوں ھولی جئی لیناں میرا ناں" بنا رہے ہوتے اور کہیں باکمال وزیر افضل " کہندے نے نیناں " کمپوز کررہے ہوتے۔ کہیں سیٹ پر گریٹ ڈائریکٹر حسن طارق کی " دیدار " بن رہی ہوتی۔ وحید مراد اور شاھد ایک دوسرے کے مقابل جذباتی مقالمے بول رہے ہوتے۔ کٹ کی آواز آتی اور سب کلیپ کرتے ۔ شباب کیرانوی ، ایس سلیمان ،شریف نئیر اور مسعود پرویز جیسے ہدایت کار تو خواجہ خورشید انور، فیروز نظامی ، ناشاد ، نثار بزمی ،رشید عطرے ، باباجی اے چشتی ، ماسٹر عبداللہ ، ماسٹر عنایت اور ایم اشرف جیسے موسیقار بھی ہوتے۔ فلمی شاعری کیاغضب کی ہوا کرتی تھی۔ گانا زبا ن زد عام ہو جایا کرتا تھا۔ کیوں نہ ہوتا؟ سیف الدین سیف ، حبیب جالب، قتیل شفائی، تنویر نقوی، حزیں قادری اور وارث لدھیانوی جو لکھتے تھے۔ سٹوڈیو کی رونقیں اپنے عروج پر ہوتی تھیں۔ مرحوم اعجاز اور حبیب سے ٹی وی انٹرویوز کے سلسلہ میں جو ملاقاتیں ہوتیں ان میں بیتے دنوں کی ایسی ایسی یاد سننے کو ملتی کہ لطف آجاتا۔ انہی میں ایک ایس پی جون بھی تھے اور شرافت علی بھی۔ دونوں ایک ایک گانے کے سنگر تھے مگر ان کا ایک ایک گانا بھی بہت تھا۔ ڈبلیو زیڈ احمد کی فلم "وعدہ" کا گانا شرافت علی نے گایا تھا" جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں "۔ اور ایس پی جو ن کا واحد گانا "تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے "۔ شرافت علی کا گانا "جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں۔۔۔جانے کیا کیا خیال کرتا ہوں، اس قدر مقبول ہوا کہ مت پوچھیں۔ یہ گانا فلم میں سنتوش کمار صاحب پر پکچرائز ہوا۔ اس گانے کو سیف الدین سیف مرحوم نے لکھا ،مگر پہلے ذکر سنتوش صاحب کا۔ وہ ایک لیجنڈ اداکار تھے۔ وہ ہماری فلم انڈسٹری کے معماروں میں سے ایک تھے۔ وہ صرف اداکار ہی نہ تھے ، وہ فلم ساز بھی تھے اور ہدائیتکار بھی۔وہ فلم انڈسٹری کے مسائل حل کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کے خلاف جباحتجاج ہوا تو سنتوش کمار صاحب گرفتار بھی ہوئے اور جیل بھی گئے مگر یہ حسین اداکار ڈٹا رہا۔ ہماری فلم انڈسٹری میں ابتدا میں مکالموں کا اندازتھیڑیکل ہوتا تھا۔ آغا حشر سٹائل میں۔ مگر سنتوش صاحب نے آکر فلم کو اس مصنوعی انداز سے باہر نکالا۔ ان کی مکالموں کی ادائیگی اور اداکاری بالکل حقیقی زندی جیسی ہوتی تھی،بناوٹ اور تردد سے پاک۔ سرکاری سطح پر حکومت نے ایوارڈز کا سلسلہ -57 1956 میں شروع کیا۔ سنتوش صاحب نے اپنی فلم انتظار میں اپنی لا جواب پرفارمنس پر بہترین اداکار کا صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ اس فلم میں باقی جنہیں ایوارڈ ملے ان میں مسعود پرویز، خواجہ خورشید انوراور نور جہاں بھی شامل تھیں۔ سیف الدین سیف صاحب نے اپنا چراغ فلم انڈسٹری میں تب جلایا جب ایک سے بڑا ایک نام فلم کے لئے لکھتا تھا۔ سیف صاحب امرتسر کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے مگر تقسیم کے وقت پاکستان آگئے۔فلم انڈسٹری جوائن کی اور 1954ء میں ایک فلم "گمنام"کے لئے ایسا گانا لکھا کہ چار سو دھوم مچ گئی۔یہ گانا ممتاز گلوکارہ اقبال بانو نے گایا اور اس کی دھن ماسٹر عنایت حسین صاحب نے بنائی۔ "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔۔۔ تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے"۔سیف صاحب نے تقسیم سے پہلے بھارتی فلم انڈسٹری میں بطور کہانی نویس خاصی جدو جہد کی۔ مگر ان کا نام پاکستان میں آکر ہی بناجب فلم گمنام کا گانا ہٹ ہوا۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی ایک لیجنڈ تھے،انور کمال پاشا جو حکیم احمد شجاع پاشا کے فرزند تھے۔ حکیم صاحب تقسیم کے وقت کئی حوالوں سے ایک بڑا نام تھے۔ بات ہو رہی ہے سیف صاحب کی۔ وہ نغمہ نگار بھی تھے، کہانی نویس بھی اور مکالمہ نگار بھی۔ان کی دو فلموں نے انہیں اَمر کر دیا۔ اردو میں "سات لاکھ" اور پنجابی میں "کرتار سنگھ"۔1957ء میں جب "سات لاکھ" بنی تو ہر طرف اسی کا ذکر تھا،اتنی چلی کہ بس ۔۔ وہ اس فلم کے پروڈیوسر بھی تھے ،کہانی نویس بھی ، مکالمہ نگار بھی اور نغمہ نگار بھی۔ اس فلم کی لاجواب موسیقی رشید عطرے نے تر تیب دی تھی۔اس فلم پر ایوارڈز کی بارش ہو گئی۔ان کی دوسری فلم "کر تار سنگھ " تھی۔یہ تاریخ ساز فلم تھی۔ آزادی ہند کے ہیرو کرتار سنگھ کی کہانی۔کرتا ر سنگھ کا ٹائٹل کردار علاو الدین مرحوم نے نبھایا۔ 1959ء میں یہ فلم بھارت اور پاکستان میں ایک ہی وقت میں ریلیز ہوئی۔بھارت کے سینما گھروں میں یہ فلم مسلسل تین سال تک چلتی رہی۔ اس یاد گار فلم کے فلم ساز ، مصنف ، ہدایت کار، مکالمہ نگاراور گیت کار صرف اور صرف سیف الدین سیف تھے۔ ان کے علاوہ اس فلم کے گیت بھارتی پنجاب کی بہت ہی نامور شاعرہ امرتا پریتم اور پاکستان کے انتہائی جینوئن فیم شاعر وارث لدھیانوی نے لکھے۔ کمال کے گیت اور باکمال میوزک سلیم اقبال نے دیا۔ اس فلم کے تمام گانے سپر ہٹ تھے مگر ایک گانا کئی دہائیاں پاکستان اور بھارت کے پنجابی کلچر پر چھایا رہا۔ دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا امڑی دے دل دا سہارا ،نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا 1959ء سے آج تک کتنے برس ہو گئے ہیں ؟مگر پاکستان ، بھارت،امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور جہاں جہاں پنجابی بولی اور سمجھی جاتی ہے مہندی اور شادی بیاہ پر لڑکیا ں بالیاں اورعمر رسیدہ خواتین بھی لہک لہک کر یہ گیت گاتی ہیں۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر مزید بات پھر سہی۔ سیف صاحب 1993ء میں ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ ہماری فلم انڈسٹری کا ایک ماضی ہے ،شاندار ماضی۔حال اور مستقبل ہو نہ ہو۔ اس لئے گاہے گاہے اس پر بات ہوتی رہے گی۔