اقتدار اور اختیار کی خواہش انسانی جبلت ہے۔ افراد سے معاشرہ اور معاشرے سے قوم بنتی ہے۔ قومیں مہینوں برسوں میں نہیں صدیوں میں بنتی اور بکھرتی ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں امریکہ میں جمہوری اور یورپ میں نو آبادیاتی نظام تشکیل پانا شروع ہوا۔ انیسویں صدی میں امریکہ میں جمہوری اور یورپ میں نو آبادیاتی نظام مضبوط ہوا ۔امریکہ اور یورپ نئے عالمی نظام میں حریف بھی تھے اور حلیف بھی۔ بیسویں صدی میں جس برطانیہ کے راج میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس برطانیہ کی مسلمانوں کے پٹرول کے ذخائر پر قبضے کی خواہش نے دنیا کو عالمی جنگوں کی طرف دھکیل دیا۔ برطانیہ نے میدان جنگ میں اپنی جیت ڈپلومیسی کی میز پر امریکہ کے آگے ہاردی۔ دنیا کی قیادت امریکہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی اور برطانیہ کو امریکہ کا بغل بچہ بننے پر قناعت کرنا پڑی۔ سیاسی لیڈر دیوار کے پار دیکھتا ہے تو فلسفی کی نگاہ صدی کے پار ہوتی ہے۔ امریکہ جب نئے عالمی نظام کی تشکیل میں جتا ہوا تھا توشاعر مشرق علامہ اقبال نے اس نئے نظام کی تشکیل کے وقت ہی اس کے خامیوں کو بھانپ لیا اور پیش گوئی کر دی کہ : گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے علامہ اقبال کے ہمالیہ کے چشموں کے ابلنے کی پیش گوئی کی گواہی اکیسویں صدی میں برطانوی دانشور اور صحافی مارٹن جیک نے اپنی کتاب When china rule the world میں دی۔ مارٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ دو سو سال سے مغرب ماڈرنائیزیشن کا علمبردار اور عالمی قیادت کر رہا ہے مگر اکیسویں صدی میں ایسا نہ ہو گا اور غیر یورپی ممالک رفتہ رفتہ عالمی قیادت کو سنبھالیں گے۔ یورپ اب دنیا پر مزید غالب نہ رہ پائے گا اور ماڈرنائیزیشن کی نئی پرتیں کھلیں گی۔ نئے عالمی نظام میں یورپ کے مقابلے میں چین کا کلیدی کردار ہو گا۔ مارٹن لکھتا ہے کہ یورپ اور امریکہ نے جب روس کے بعد چین کو بھی کیپیٹل ازم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا توسمجھا کہ روس کی طرح کیپٹل ازم کے ساتھ یورپ کا ماڈرن ازم چین پر بھی غالب آئے گا اور روس کی طرح چین کا نظام بھی ڈھیر ہو جائے گا۔مارٹن نے 2009ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ چین کی ماڈرنیٹی یورپ سے مختلف ہو گی۔ چین دو دھائیوں میں عظیم معاشی طاقت بن کر ابھرے گا اور تیزی سے امریکہ کی گرفت سے آزاد ہو کر نئے عالمی نظام کی تشکیل کی کوشش کرے گا ۔مارٹن کے مطابق چین کا دنیا پر اثرورسوخ امریکہ کی طرح معاشی مفادات اور وسائل کے قبضے کے بجائے باہمی ترقی اور ثقافتی نظریاتی اور معاشی اشتراک پر مبنی ہو گا۔ مارٹن نے دلیل یہ دی تھی کہ چین صدیوں تک مشرقی ایشیا تہذیب و ترقی کا نمائندہ رہا ہے اور چین کی یہ حیثیت انیسویں صدی میں نو آبادیاتی نظام کی تشکیل کے بعد ختم ہوئی تھی۔ مارٹن کیمطابق چین کی ثقافت اور تہذیب چین کے عوام کی سانسوں میں بستی ہے۔ 92فیصد عوام اپنی تہذیب اور کلچر سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اس لئے چین کا تقابل امریکہ، برازیل، ترکی اور بھارت کے ملٹی کلچرل معاشروں سے کرنا غلط ہو گا جن پر مغرب کاکلچر غالب آچکا ہے۔ گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کے اخبار ابزرور میں بریگیڈیئر جنرل شاہدالانعم خان نے اپنے مضمون لکھا کہ امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو کا یہ بیان کہ چین اس ہاتھ کو کاٹ رہا ہے جواس کو فیڈ کر رہا ہے۔ شاہد الانعم نے امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان کو سابق امریکی صدر نکسن کے بیان کی بازگشت قرار دیا کہ دنیا تباہی کے مقابلے کے لئے تیار ہو جائے۔ نکسن نے روس کو تباہی سے تعبیر کیا تھا تو آج پومپیو چین کو امریکی اور عالمی مفادات کے لئے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ بریگیڈیئر شاہد پومپیو کے بیان کو مایوسی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بلواسطہ طور پر امریکہ میں بھی یہ احساس تقویت پکڑ رہا ہے کہ چین کا معاشی اور جغرافیائی سیاست میں ابھرنا امریکی بالادستی کے لئے چیلنج بن چکا ہے۔ چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری جو نوے کی دہائی میں عالمی سرمایہ کاری کا محض 5فیصد تھی بڑھ کر 38فیصد ہو چکی ۔ورلڈ بنک نے چین کی ابھرتی اور مضبوط ہوتی معیشت کا اعتراف کیا ہے۔ چین سب سے زیادہ امریکی سکیورٹی بانڈز خریدنے والا ملک بن چکا ہے۔ بریگیڈیئر شاہدا لانعم کے مطابق ’’امریکہ نوشتہ دیوار پڑھنے سے عاری ہے یا پھر دیکھنا نہیں چاہتا کہ دنیا میں طاقت کا توازن تیزی سے بدل رہا ہے‘‘ نئی عالمی صف بندیاں کورونا کی وبا کے دوران بھی ہو رہی ہیں ۔ صرف امریکہ ہی بدلتی دنیا کو محسوس کرنے پر آمادہ نہیں ۔ امریکہ کو یہ تسلیم کر لینا ہو گا کہ اب دنیا اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے لئے تیار ہے نا ہی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے پر۔دنیا چین اور امریکہ میں فرق یہ محسوس کر رہی ہے کہ چین امریکہ کی طرح دوسروں کے وسائل ہڑپ کرنے کے لئے نا تو جنگیں مسلط کرتا ہے نہ تباہ کن ہتھیاروں کی فروخت سے اپنی معیشت کی بڑھوتری دیتاہے۔ چین دنیا کو ترقی میں شرکت دار بنانا چاہتا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے عالمی برادری کے معاشی مفادات جوڑنا چاہتا ہے ۔چین نے اپنی پالیسی دشمنی نہیں دوستی اور مشترکہ ترقی کی بنیاد پر استوار کی ہے یہاں تک کہ بھارت جیسے دشمن کو بھی ترقی کے سفر میں شمولیت کی دعوت دے چکا ہے۔ ایران کے گرد امریکی شکنجے کی گرفت ڈھیلی کرنے کے ساتھ ایران کے دشمن سمجھے جانے والے سعودی عرب کے ساتھ پر امن جوہری معاہدے سمیت معاشی ترقی میں حصہ دار بن چکا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا امریکہ کے ہاتھ سے پھسل رہی ہے اور اس کا ثبوت امریکی سینیٹرز کی طرف سے چین سعودی عرب جوہری تعاون پر امریکی صدر سے تحفظات کا اظہار ہے۔ چین نے امریکی تحفظات کو رد کرتے ہوئے سعودی عرب سے پرامن جوہری تعاون جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔دشمنی کی بجائے دوستی اور تجارت کی چین کی پالیسی کا نتیجہ ممکن ہے ایران سعودی عرب مخاصمت میں کمی کی صورت میں نمودار ہو،ایسا ہوا تو اقبال کا یہ خواب بھی سچ ثابت ہو گا کہ: تہران ہوگر عالم مشرق کاجنیوا شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے