یہ مائنس ون اور مائنس ٹو والے سیاسی ڈھونگ اور کھیل تماشے‘ سب عوام کو بیوقوف بنانے کے علاوہ اور کیا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار اور طاقت کی اس کہانی میں خود عوام 73 سالوں سے مائنس ہو چکے ہیں۔ سو عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہاں بظاہر مائنس فلاں اور مائنس فلاں ہوتا رہے گا لیکن اصل ہاتھ تو عوام کے ساتھ ہو چکا ہے جن کے نام پر ووٹ مانگے جاتے ہیں‘ جن کی زندگیاں آسان بنانے کے دعوے کئے جاتے ہیں جن کو سیڑھی بنا کر شہر اقتدار میں قدم رنجا فرمایا جاتا ہے‘ وہی عوام دراصل اختیار اور طاقت کے اس کھیل سے مائنس کر دیئے جاتے ہیں۔ سو مائنس عوام کا کھیل یہاں پہلے بھی کھیلا جاتا رہا ہے لیکن جس دھڑلے‘ ڈھٹائی اور بے حسی کے ساتھ موجودہ حکومت میں عوام کی ضرورتوں‘ تکلیفوں اور مسائل کو نظرانداز کیا گیا ہے اور کہا جارہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ تبدیلی سرکار نے ہر وہ کام کیا جس سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہو۔ اس حکومت سے پہلے تک لاہوریوں کو پبلک بسوں کی صورت سستی سواری میسر تھی۔ لاہور کی سڑکوں پر سبز اور نیلے رنگ کی پبلک بسیں ہمہ وقت محو سفر نظر آتی تھیں۔ لاہور کی آبادی کے حساب سے وہ بسیں بھی ابھی کم تھیں پھر ان میں سرخ رنگ کی سپیڈو بسوں کا اضافہ کیا گیا۔ اس میں مسئلہ یہ تھا کہ سواری صرف اپنا مخصوص سپیڈو بس کا کارڈ دکھا کرہی اس میں سفر کر سکتی تھی۔ وہ بسیں آرام دہ اور ایئرکنڈیشنڈ تھیں۔ امید یہ تھی کہ پی ٹی آئی حکومت آئی ہے تو سپیڈو بسوں میں مخصوص کارڈ کی پابندی کو ختم کر کے اس کے طریقہ استعمال کو عوام کے لیے آسان کر دے گی۔ کیونکہ جتنے بلندوبانگ دعوے غریبوں کی زندگی بدلنے کے کپتان نے کئے تھے شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی سیاستدان نے ایسے دعوے نہیں کیے ہوں گے۔ اگرچہ کہ یہاں بڑے بڑے نوسرباز حکمران آئے جو کہتے کچھ رہے اور کرتے کچھ رہے۔ لیکن موجودہ حکومت نے دعوئوں اور کھوکھلے وعدوں کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیئے تو جناب غریب کی زندگیاں بدلنے کے دعوے کرنے والے جب حکومت میں آئے تو مہنگی اور پرائیویٹ گاڑیوں کے درمیان سڑکوں پر محو سفر پبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں کا ہی خاتمہ کردیا۔ لاہور میں 19 روٹس پر پبلک بسیں چلا کرتی تھیں جن کا ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک کا کرایہ صرف 20 روپے تھا۔ حکومت نے سب سے پہلے 20 روپے کرایے میں اضافہ کیا۔ غریبوں نے احتجاج کیا تو اس کا حل یہ نکالا کہ بسوں کا ہی خاتمہ کردیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے آنے سے پہلے لاہور کے 19 روٹس پر کم و بیش 400 بسیں چلا کرتی تھیں۔ غریب طبقے کے لیے سہولت تھی کہ کم مناسب پیسے ادا کر کے وہ لاہور کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتے تھے۔ بیس روپے کرایہ بھی اس لیے تھا کہ پنجاب حکومت پبلک ٹرانسپورٹ کو سبسڈی دیتی تھی جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے وہ سبسڈی ختم کر کے کرایوں میں اضافہ کیا۔ دوسرے مرحلے میں اچھی بھلی چلتی ہوئی بسوں کو بند کردیا۔ بہتر حالت میں چلتی ہوئی بسوں کو بند کرکے کباڑ کے بھائو بیچ دیا گیا۔پنجاب حکومت کی کارکردگی دیکھنی ہو تو اس کے لیے یہ ایک مثال ہی کافی ہے۔ سرخ رنگ والی سپیڈو بسیں ابھی بالکل نئی آئی تھیں انہیں بھی بند کردیا گیا۔ آغاز میں ان کا بھی کارڈ سسٹم ختم کر کے کرایہ اتنا بڑھا دیا کہ ایک عام شہری اپنی جیب سے اتنا کرایہ ادا نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد بسیں بند کردی گئیں۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ ملک نہ ہو کوئی اندھیر نگری ہے یہ تو سیدھا سادہ غریبوں کے حق پر ڈاکہ مارا گیا مگر اس پر کوئی سوال کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ ہاں جن غریبوں کی زندگیاں پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے سے مزید اذیت میں مبتلا ہوئیں‘ ان کی آواز ہی اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچتی۔ ایک عام آدمی کی آواز اس کی چیخ‘ اس کا احتجاج‘ اقتدار کے ایوان تک کیوں نہیں پہنچتا۔ کیوں اس کی تکلیف اور اذیت کی کہانی اہل اختیار کی سماعت تک نہیں اترتی۔ اس لیے کہ یہ اقتدار طاقت اور اختیار کا کھیل ہے اس کھیل میں وہ حصہ ہے ہی نہیں۔ وہ اس کھیل میں محض ایک تماشائی ہے۔ اسے تو بس اپنی زندگی کے شب و روز کا بوجھ جیسے تیسے کر کے ڈھونا ہی ہے۔ اس کے نام پر ووٹ لے کر تخت شاہی سجانے والے اسے اس کھیل سے اسی روز مائنس کردیتے ہیں جس روز وہ شہر اقتدار میں داخل ہو کر ملک اور عوام سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور یہ جو مائنس ون اورمائنس ٹو والا سیاسی کھیل تماشا ہے صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے علاوہ اور کیا ہے۔ پاکستانی جمہوریت بھی انوکھی ہے جس کے ثمرات صرف اہل اقتدار و اہل اختیار تک پہنچتے ہیں کیونکہ اقتدار اور طاقت کے اس کھیل میں عوام کا کوئی کردار ہے ہی نہیں۔ وہ تو 73 سالوں سے مائنس ہو چکے ہیں۔