وہ قریب المرگ اور مایوس بزرگوں کی ایک سادہ مگر باوقار محفل تھی۔یعنی اتنے قریب المرگ کہ تھوڑی ہی دیر میں آسمان پہ چیلیں منڈلاتی نظر آئیں ۔ بزرگ حسب توقع زیادہ ڈھیٹ ثابت ہوئے اور چیلوں کو ایک بار پھر مایوس لوٹنا پڑا۔ولایت فقیہہ کے صدقے جاؤں جس نے امریکہ کو شیطان بزرگ کا لقب دے کر اس لفظ کے درست معنی ہم کم علموں پہ آشکار کئے ورنہ برصغیر میں تو ہمیں ہر بزرگ کی محض اس لئے عزت کرنی پڑتی ہے کہ وہ ہم سے پہلے پیدا ہوکراپنی بونس کی زندگی چارپائی پہ بیٹھ کر حقہ گڑگڑانے اور نئی نسل کو کوسنے میں گزار دیتا ہے۔عزت کرنا اچھی بات ہے،لیکن اس پہ بزرگوں کا ہی حق کیوں ہو؟نوجوان اس سے کہیں زیادہ اس کے مستحق ہیں جو ہر طرف سے طعن و تشنیع کی زد میں ہیں۔قصور ان کا یہ ہے کہ وہ اپنے ان ہی بزرگوں کابویا کاٹ رہے ہیں ، جو اس پہ مصر ہیں کہ انہوں نے تو گلاب ہی بوئے تھے ،یہ سراسر نوجوان نسل کی نالائقی ہے کہ وہ کیکرکاٹنے پہ تلی بیٹھی ہے۔ مجھے ان بزرگوں میں سے کسی کی قابلیت پہ شک ہے نہ تجربے پہ۔ یہ اپنے شعبے کے بڑے نام ہیں ، جیسی ناموری کے ہم خواب دیکھتے ہیں۔یہ قابل تحسین بات ہے کہ مستقل مزاجی اور بروقت درست فیصلوں نے انہیں اس مقام پہ پہنچادیا ہے جہاں کہیں بلندی پہ بیٹھے وہ ہم پہ فقرے کس سکتے ہیں، ہمیں ملعون کرسکتے ہیں،اور تو اور ہم پہ احسان دھر سکتے ہیں۔ان کا احسان ہماری نسل پہ یہ ہے کہ انہوں نے کسی آمر کے گیارہ سالہ دور استبداد میں اپنی پشت پہ کوڑے کھائے تھے،شاہی قلعہ میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں اور کسی نامعلوم تعلق اور رابطوں کے ذریعے دشمن ملک بھارت فرار ہوگئے تھے۔ان میں سے کئی جب واپس لوٹے تو حیرت انگیز طور پہ ان کی ڈوبی ہوئی لٹیائیں نہ صرف بحری بیڑوں میں تبدیل ہوچکی تھیں بلکہ بے حد روانی سے رواں دواں تھیں۔ کاروبار چمک رہے تھے اور کیریئر اپنے عروج پہ تھا۔ ہمیں ان کا مرہون احسان ہونا ہی چاہئے کہ ہم سوشل میڈیائی نوجوان کوڑے کھانے کے حق میں ہیں، نہ کوڑے مارنے کے۔ہم تو بس یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر آپ نے کوڑے کھائے تو اپنی پشت پہ کھائے۔یہ احسان ہماری پشت پہ دھرنا کوئی انصاف کی بات نہیں ہے۔ہم یہ سوال بھی تو کرسکتے ہیں کہ جناب آپ جیسے عالی دماغوں، بزرجمہروں ، منصوروں اور سقراط صفتوں کے ہوتے ہمارا ملک دو لخت ہوگیا تو کیسے ہوگیا؟ہم ، یعنی کہ آج کا پاکستانی نوجوان اپنے بچے کچھے پاکستان کو جو آپ کی ہوس اقتدار،غلط فیصلوں بلکہ ریشہ دوانیوں کے سبب نصف رہ گیا،یہ تصور کرتے بھی لرز جاتا ہے کہ ترکے میں نصف وصول پائے ملک کو جسے وہ محبوب کے آخری خط کی طرح کلیجے سے لگا کر رکھتا اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر دیکھتا ہے کہ وہ آخری پونجی اپنی جگہ پہ ہے،کیونکر دولخت ہوگیا؟ہم تو اے بزرگان جمہور و عوام اور بزعم خود مملکت خداداد کے وارثین! یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ موجودہ پاکستان کو، وہ جیسا بھی ہے اور جہاں تک بھی پہنچا ہے، اسے ذرا سی گزند بھی پہنچے۔ پھر کیا ہم یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے کہ اگر آپ نے پشت پہ کوڑے کھائے تھے، تو آپ کے مخالفین ، یعنی وہ جن میں اور آپ میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے، آپ کے نظریاتی حریف ، اسلام کے ٹھیکے دار اور مذہب کے بزعم خود محافظین نے آپ سے پہلے گولیاں بھی کھائی تھیں۔ ضیاء الحق اگر کوڑے مارنے پہ اتارو ہو بھی گئے تھے تو بارہ کروڑ عوام کو گن گن کر کوڑے تو نہیں لگائے تھے اور لگائے تھے تو وہ مردود خلائق تو تھا ہی آمر۔ اور آمریت سے آپ کو کیا توقع تھی؟بھٹو تو جمہوریت کے چیمپئین تھے،دلائی کیمپ اور ایف ایس ایف نے کوئی پھول نہیں برسائے تھے۔ موصوف اسمبلی میںجانے والوں کو ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں ہی نہیں دیتے تھے، سچ مچ توڑ بھی دیا کرتے تھے۔ڈاکٹر نذیر۔ عبد الصمد اچکزئی ہی نہیں اپنے بھی موصوف کی افتاد طبع کا شکار ہوئے۔پھر ہم ہر بار یہی کہانیاں کیوں سنیں کہ آپ کے کوڑے کھانے سے ہماری قسمت بدل گئی تھی۔ہماری قسمت ہم خود بدلیں گے۔ہم کوڑے نہیں کھائیں گے اور اپنے بچوں کو کہانیاں نہیں سنائیں گے۔ بزرگی قابل تعظیم ہے اور کیرئیر میں مستقل مزاجی سے نصف صدی گزار لینا قابل تحسین ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے کیرئیر ایسے چنے جن میں ریٹائرمنٹ کا امکان نہیں تھا حتی کہ ملک الموت ہی آکر استعفیٰ نہ لے لے۔تو اس میں آپ کا کیا کما ل ہے؟آپ کی نام نہاد جدوجہد نے صرف آپ کے کیریر بنائے یا بگاڑے تو بہتر ہوگا کہ اس کا احسان اپنی ذاتی نسل پہ دھرا جائے جو شاید آپ کے بھی کہنے سننے میں نہیں۔ ملک کہاں جارہا ہے ، کیسے جارہا ہے اور کون لے جارہا ہے، یہ آپ سے پوچھنے کی زحمت نہ کسی آمر نے کی نہ کسی جمہوری نے۔ہماری تو بس اتنی گزارش ہے کہ مایوسی کے جراثیم پھیلانا بند کریں۔ آپ یقین کریں کہ نئی نسل اپنے ملک کے مسائل سے بھی واقف ہے اور اپنی خامیوں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔ گو کہ ہم آپ کا بویا کاٹ رہے ہیں لیکن ہم آپ پہ الزام نہیں دھرتے۔ہمارے مسائل اس دنیا کے مسائل ہیں جہاں ٹیکنالوجی نے ہم سے کچھ بھی مخفی نہیں رہنے دیا۔ ہم کسی یوٹوپیا میں نہیں رہتے۔ہمیں اپنا ملک اس لئے عزیز ہے کہ ہم میں سے اکثر کے پاس کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہے اور یہ دنیا کے ہر نوجوان کا مسئلہ ہے۔ آپ تیسری دنیا کے ہر نوجوان کو اس دنیا میں ہجرت کرنے پہ مجبور نہیں کرسکتے جہاں آپ کے نظریئے کے مطابق سب اچھا ہے۔یقین کیجیے، سب اچھا کہیں نہیں ہوتا۔جہاں جمہوریت آپ کو زوروں پہ نظر آتی ہے وہاں بھی نہیں۔ مجھے جہاں تک محسوس ہوتا ہے آپ کو موجودہ حکومت کے سڑسٹھ سالہ نوجوان سربراہ سے رقابت محسوس ہوتی ہے۔جس نے ہمیں کبھی طعنہ نہیں دیا، ہمارے لئے کوڑے نہیں کھائے اور ہماری خاطر جیل کاٹی نہ سولی پہ چڑھا۔ اس نے ہمیں شرف انسانی کا سبق پڑھایا اور ہمیں روٹی کپڑا اور مکان کے خیراتی نعرے سے دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے برابر آنے کا خواب دکھایا۔ اس نے مذہب کے ٹھیکے داروں کو چارج نہیں سنبھالنے دیا اور اس نے لبرل ازم کے بھی پرخچے اڑا دئیے۔ اس نے کہا دنیا کی پہلی فلاحی ریاست مدینہ کی ریاست ہے،اس نے کہا میرا نبی میرا آئیڈیل ہے جو یتامیٰ کے سر پہ ہاتھ رکھتا اور غلاموں کو آزاد کرتا تھا۔ اس نے کہا ، مسلمانوں کا دوسرا خلیفہ کرتے کا حساب بھرے مجمع میں دیتا اور چوتھا خلیفہ ایک یہودی سے کیس ہار جاتا تھا۔ انصاف اور حقوق انسانی ہمارے نبیؐ کا آخری خطبہ ہیں۔ ایسے میں پشت پہ کوڑے کھانے والوں کی مایوسی بھی سمجھ آتی ہے اور مذہب کے ٹھیکے داروں کی بددلی بھی۔ہم آپ دونوں کے ممنون احسان ہیں۔