قدرت کا ایک اٹل اصول ہے کہ وہ مہلت دیتی ہے مگر کوئی بھی مہلت لامحدود نہیں ہوتی۔ عدالتی فیصلے کے بعد عمران خان ٹھنڈے پڑ گئے اور 13جماعتی حکمران اتحاد بھی۔آئندہ چند روز تک ہر طرف سکون ہی سکون۔تیسری طاقت اسٹبلشمنٹ ہے ،اس وقت وہ بھی بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے ۔مستقبل میں سیاسی افق پر نئے نئے مسائل ابھریں گے۔اشرافیہ غریب عوام کا استحصال کرنے کے نئے جتن کرے گی ۔ہفتہ وار مہنگائی میں سیاست کی طرح اتار چڑھائو جاری ہے ۔جیسے ہی سیاسی ماحول گرم ہوتا ،تو مہنگائی کا گراف بھی اوپر اٹھ جاتا ہے،کسی میں ہمت نہیں کہ وہ بڑھتی مہنگائی کو روکے ۔ جس طرح شریف خاندان کی تیسری نسل میں اختلافات کی آوازیں اٹھ رہی ہیں ،ایسے ہی چوہدری برادران کی تیسری نسل میں اختلافات واضح ۔اگر شریف خاندان کی تیسری نسل کو دیکھا جائے تو اس میں حمزہ شہباز اور مریم نواز دونوں سیاست میں ہیں ،جبکہ عباس شریف کی اولاد صرف کاروبار تک محدود۔لہذا اختلاف مریم اور حمزہ میں ہو گا ،مگر وہ دونوں کئی بار اس کی تردید کر چکے۔یہاں تک جب حمزہ شہباز وزیر اعلی پنجاب بنے تو مریم نواز نے انھیں جاکر مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ،لہذا آپ نہیں کہہ سکتے ہیںکہ وہاں کوئی زیادہ مسائل ہیںجبکہ چوہدری برادران کے گھر میں تیسری نسل کے راستے جدا ہو چکے ہیں، حالانکہ کزن کے علاوہ ان کے درمیان اور گہرے رشتے موجود ہیں۔حالیہ بحران میں آصف علی زرداری شاید چوہدری پرویز الٰہی کو رام کر لیتے مگر چوہدری مونس الٰہی بڑی رکاوٹ تھے۔وزیر اعلی پنجاب کا یہ کہنا بجا ہے کہ ہم نے اپنی سیاست کر لی ہے،اب نسل نو نے فیصلہ کرنا ہے وہ کیسے چلنا ہے ۔چوہدری مونس الٰہی سب کزنز میں سیاسی طور پر نمایاں ہیں ۔اس کی وجہ ان کا پہلے سیاست میںآ جانا ہے ۔ذاتی طور پر بھی مونس الٰہی کے نسل نو کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ۔چوہدری سالک حسین اور شافع حسین اور رافع حسین کا سیاسی مستقبل زیادہ روشن نہیں، آئندہ انتخابات میں شاید وہ کوئی سیٹ نہ لے سکیں ۔جبکہ چوہدری وجاہت حسین کے صاحبزادے حسین الٰہی اور موسیٰ الٰہی بھی سیاسی ذہن کے حامل ہیں ۔لہذا چوہدری شجاعت فیملی کا سیاسی مستقبل سورج گرہن کی ماند ہی ہو گا ۔کسی کو روشنی ملے گی نہ فائدہ ،بلکہ ساتھ ملنے والوں کو الٹا نقصان ۔ ظہیر الدین بابر نے شروع میں بڑی ناکامیوں کا سامنا کیا ۔ ڈاکٹر پریمقل قادروف اپنی سوانحی ناول ’ظہیر الدین بابر‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ بابر نے کہا :سب کچھ فانی ہے۔ بڑی بڑی سلطنتیں تک اپنے بانیوں کے دنیا سے اٹھتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں۔ لیکن شعرا کا کلام صدیوں تک زندہ رہتا ہے۔انھوں نے اپنا ایک شعر کبھی جمشید بادشاہ کے ذکر کے بعد ایک جگہ پتھر پر کندہ کرا دیا تھا، جو اب تاجکستان کے ایک میوزیم میں ہے۔ وہ ان کے حالات کی ترجمانی کرتا ہے: گرفتیم عالم بہ مردی و زور ولیکن نہ بردیم با خود بہ گور دنیا پر طاقت اور ہمت سے قبضہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن خود اپنے آپ کو دفن تک نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے۔ بابر میں کسی پہاڑی چشمے کی سی قوت تھی جو سنگلاخ زمین کو چیر کر بلندی سے اس قوت کے ساتھ نکلتا کہ ساری زمین کو سیراب کرتا۔ چوہدری شجاعت حسین کی سیاست ختم ہو جائے گی لیکن ۔۔ان کی مہمان نوازی ،روٹی شوٹی کھا کے جانا،مٹی پائو۔جیسے الفاظ تاریخ کا حصہ رہیں گے ۔ کامیاب سیاستدان وہی ہے جو ہار نہ مانے۔ جہد مسلسل میں لگا رہے ۔ہم ایسی آفت میں گھرے اور ایسی دلدل میں اترے ہیں کہ باید و شاید۔ بعض پہلو تو ایسے ہیں کہ کھل کر بات ہو نہیں سکتی۔ خاص طور پر قومی سلامتی سے متعلق ۔غالب نے کہا تھا: عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک یہا ں ہر حکومت نے غریبوں کو ’’جانور‘‘ سمجھا، ان لوگوں کو عوام کا خیال صرف الیکشن کے دنوں میں آتا ہے، سائرن بجا کر لوگوں کو بھگا دیا جاتا ہے اور بریانی کے پیکٹ پھینک دیے جاتے ہیں۔ بھئی کتنا کماؤ گے، کتنا لوٹو گے، کتنا جھوٹ بولو گے؟ غریب تو اب کہتے ہیں آپ کی طاقت کے سوا اب کوئی طاقت نہیں، کچھ بچا ہی نہیں ،میرے لیے جنت کے سوا۔ سیلاب متاثرین اب بلک بلک پر التجائیں کر رہے کہ ہمارا بھی کچھ خیال کر لو۔ وزیراعظم چھ سات ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلا چکے ہیں، غریب کہتے ہیں : ہمیں بدنام نہ کریں، اپنے لیے مانگیں۔کیونکہ جب غریبوں کو کچھ دینا ہی نہیں تو ان کے نام پر مانگا کیوں جا رہا ۔وزیروں اور مشیروں کی ایک فوج ہے ۔ہر روز ایک مشیر اور معاون خصوصی کا اعلان دیکھنے کو ملتا ہے ۔ طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے ۔دنیا بھر سے تنقید جاری ہے ۔ حالانکہ باپردہ تعلیم کی اجازت ہونی چاہیے ۔ طالبان کو یونی ورسٹیوں کا ماحول اسلامی بنا کر دینا کے سامنے ایک مثال قائم کرنی چاہیے ۔ جیسے سود کے مقابل اسلامی نظام معیشت موجود ہے ،ایسے ہی اسلامی نظام تعلیم بھی ہے ۔اس کی جانب بڑھیں ۔ماضی قریب میں جب طالبان حکومت کی طرف سے خواتین کے پارکوں اور جِم میں جانے پر پابندی عائد کی تو خواتین نے گھر کے خفیہ تہہ خانوں میں جِم قائم کرنا شروع کر دیے ہیں۔جِم میں کھڑکیوں سے کوئی روشنی آتی نا ہی یہاں کوئی میوزک بجایا جاتا ، یہاں ورزش کے لیے آنے والی خواتین عقبی دروازے سے اندر آتی تھیں ۔لیکن انھوں نے پابندی کا توڑ نکال لیا تھا ۔ محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ’’دربار اکبری‘ ‘میں لکھا ہے کہ امیر تیمور نے ہندوستان کو زور شمشیر سے فتح تو کیا، مگر وہ ایک بادل تھا جو گرجا، برسا اور دیکھتے ہی دیکھتے کھل گیا۔ افغان طالبان نے بھی اسی طرح کابل کو بزور بازو فتح کیا ۔اب انھیں امیر تیمور کی طرح صرف گرج اور برس کر کھلنے کی بجائے ،اسے اسلامی مملکت کی عملی تصویربنانا چاہیے ۔