تھامس جفرسن نے اچھی حکومت کا واحد مقصد عوام کی ترقی و خوشحالی اور جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا بتایا ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی کا معیار بھی اس کے عوام کے معیار زندگی سے لگایا جاتا ہے۔ تحریک انصاف میرٹ، شفافیت اور بدعنوانی کے خاتمے کے ذریعے ملک کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کرتی ہے۔حکومت 18اگست 2021ء کو اپنے اقتدار کے تین سال مکمل کر چکی ۔حکومت نے تین سال کے دوران اپنی کارکردگی کا پورے ملک میں بھرپور ڈھنڈورا پیٹا اور وزیراعظم کا تقریب سے خطاب ملک بھر میں بڑی سکرینز کے ذریعے پاکستانیوں کو دکھا یا اور سنوایا گیا۔ حکومت ملک کو خسارے سے نکالنے، زرمبادلہ کے ذخائر 27 ارب تک پہنچانے، تارکین وطن کی طرف سے 29 ارب کی ترسیلات زر بھجوانے‘احساس پروگرام، گھروں اور کاروبار کے لئے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی اور ڈیمز کی تعمیر کو اپنے کارناموں کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے فوری انصاف کی فراہمی کے لئے 54 قوانین تیار کئے ہیں۔ہیلتھ کارڈ کے ذریعے عوام کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ حکومت کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘سندھ پلان اور بلوچستان کے لئے بڑے ترقیاتی پیکجز کے اعلان کو بھی بطور دلیل پیش کرتی ہے ۔حکو متی کارکردگی کو وزیر اعظم کی عینک سے دیکھا جائے تو ممکن ہے ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آئے مگر مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کے چودہ طبق روشن کر دیئے ہیں یا پھر اسد عمر کے بقول عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ عمران خان کا سحر اور شعلہ بیانی اپنی جگہ لیکن عام پاکستانی حکومتی دعوئوں پر اختر علی اختر کی طرح یہی دہائی دے رہا ہے: مجھی کو پردہ ہستی میں دے رہا ہے فریب وہ حسن جس کو کیا جلوہ آفریں میں نے حکومت کا زرمبادلہ کے ذخائر 27 ارب ڈالر تک لے جانا کارنامہ ہی سہی مگر اقتصادی ماہرین کے مطابق اگست 2018ء سے 2021ء تک مہنگائی میں مجموعی طور پر 26فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں 36فیصد بڑھی ہیں ۔ جس پر ایک وزیر نے کہا کہ حکومت اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کو تو کم نہیں کر سکتی البتہ عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ کر سکتی ہے۔عام آدمی کی قوت خرید بڑھانے کیلئے حکومتی اقدامات کا یہ عالم ہے کہ حکومت نے اپنے اقتدار میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25اور پنشن میں 20فیصد اضافہ کیا ہے اس لحاظ سے بھی سرکاری ملازمین کی قوت خرید میں 16فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ معاشرہ کے انتہائی پس ماندہ طبقات بچوں کو زہر د ینے یا نہروں میں کود کر خودکشی کرنے پر مجبور ہیں ۔ حکومت کے اپنے وزیر خزانہ شوکت ترین کے مطابق کورونا وائرس کے آغاز کے وقت پاکستان میں تقریباً 5کروڑ 60لاکھ افراد برسرروزگار تھے، تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کورونا ایسا آیا کہ برسر روزگار افراد کی تعداد کم ہو کر 3کروڑ 50لاکھ رہ گئی، اس طرح 2کروڑ 10 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے جن میں سے حکومتی دعوے کے مطابق احساس پروگرام کے تحت 70لاکھ افرادکی مدد کی گئی لیکن باقی ایک کروڑ 40 لاکھ کا کیا ہوا اس کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں۔حکومت کا ہر سال دس ڈیم بنانے کا دعویٰ بھی ’’گا،گے، گی‘‘ سے آگے نہیں بڑھا۔ مہمند‘دیامر بھاشا اور داسو ڈیمز بن رہے ہیں جن پر کام گذشتہ حکومت نے شروع کیا تھا البتہ حکومت نے پاکستانیوں پر اتنی مہربانی ضرور کی کہ یہ منصوبے ختم نہیں کئے۔ اب آتے ہیں ایک لاکھ گھروں کی طرف حکومت بلاشبہ گھروں کے لئے سستے قرضے فراہم کر رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سستے قرضے عام پاکستانی کو مل رہے ہیں یا پھر سرمایہ دار ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔حکومت مختلف بنکوں کے ذریعے 45 ارب کے آسان قرضوں کی فراہمی کا دعویٰ کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بنک غریب کی رجسٹری رکھ کر بھی یہ کہہ کر قرض دینے سے انکار کر رہے ہیں کہ آمدن کا ثبوت نہیں۔جو لوگ نجی کارخانوں یا پرائیویٹ اداروں میں کام کر رہے ہیں اور ان کی تنخواہ بنک میں نہیں جاتی ان کی درخواست کو سیلری سرٹیفکیٹ کی عدم فراہمی کا اعتراض لگا کر مسترد کیا جاتا ہے اور جو کوئی ٹھیلہ لگا کر روزی کما رہا ہے اس سے بنک سٹیٹ منٹ طلب کی جا رہی ہے، نہ نومن تیل ہو نہ رادھا ناچے گی۔رہا ہیلتھ کارڈ کا دعویٰ تو تحریک انصاف نے کے پی کے میں ہیلتھ کارڈ فراہم کئے ہوں تو کیے ہوں، پنجاب میں 70فیصد گھرانوں کو صحت کارڈ کی فراہمی صرف’ دعویٰ‘ تک ہی محدود ہے۔ جہاں تک تحریک انصاف کے میرٹ، شفافیت اور بدعنوانی کے خاتمے کے کلیدی دعوئوں کا تعلق ہے ،عالمی رپورٹس 2018ء کے بعد پاکستان میں بدعنوانی میں اضافے کی نشان دہی کر رہی ہیں۔ قانون کی حکمرانی اور نظام عدل میں اصلاحات کی بات کی جائے تو حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق جرائم کی شرح میں 8فیصد اضافہ ہوا ہے اور ہو بھی کیوں نا! بے روزگار ہونے والے 1کروڑ 40لاکھ میں سے کتنے اپنے بچوں سمیت خودکشی کرنے کا حوصلہ پاتے ہو ں گے، اور شاید باقی زندہ رہنے کے لئے اور اچھے دنوں کی امید پر وقتی طور پر پیٹ پالنے کے لئے جرائم کو ہی واحد حل سمجھتے ہوں گے۔یہ سچ ہے کہ حکومت نے زرمبادلہ میں 27ارب ڈالر کا ڈھیر لگا دیا۔29ارب ترسیلات زر بھی آ گئیں، برآمدات میں اضافہ بھی ہوا ہو گا، لارج سکیل مینو فیکچرنگ میں اضافہ بھی اپنی جگہ سچ ہو گا۔ملک میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ بھی حقیقت سہی لیکن سوال تو یہ ہے کہ اس سب سے مستفید کون ہو رہا ہے ۔ کیاگاڑیاں بے روزگار ہونے والے 1کروڑ 40 لاکھ اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی کل آبادی کے 35فیصد غریب خرید رہے ہیں یا پھر جن کے پاس پہلے 2تھیں وہ چار کر رہے ہیں؟کیا یہی وہ معاشی مساوات ہے جس کا دعویٰ اور وعدہ کیا گیا تھا؟ عام پاکستانی سے حکومت کی تین سال کی کارکردگی کی روشنی میں اس کے باقی ماندہ دوسال کی ترقی کے بارے میں پیش گوئی کرنے کو کہا جاتا ہے تو وہ بزبان حال اقبال ساجد کا اس شعر کا مصداق بن جاتا ہے : پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا