28 جولائی 2017ء کو جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے میاں نواز شریف کو مافیا ڈان قرار دیتے ہوئے صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر آرٹیکل 62 ون ایف اور 63 کے تحت نااہل قرار دے دیا تھا۔ بعدازاں تقریباً ایک سال بعد6 جولائی کو نیب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں لندن کے مہنگے فلیٹس کے ذرائع آمدن نہ بتانے پر دس برس قید اور 8 ملین پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی جسے بعدازاں میاں نواز شریف کی اپیل پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا اور انہیں ضمانت دیدی۔ پیر کو دیگر ریفرنسز العزیزیہ اور فلیگ شپ کے فیصلے سنا دیئے گئے۔ العزیزیہ کیس میں سات برس قید، تقریباً پونے چار ارب روپے جرمانہ اور دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی کی سزائیں سنا دی گئیں اور فلیگ شپ ریفرنس میں بری کر کے اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کا استدلال ہے کہ جس اقامے کو جواز بنا کر نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا، اس کیس یعنی فلیگ شپ ریفرنس میں انھیں بری کردیا گیا ہے، اس تناظر میںیہ واضح نہیں ہوسکا کہ اب میاں صاحب کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کی پوزیشن کیا ہے؟۔ یقینا نواز شریف کے وکیل اس کیس میں بھی ضمانت کی درخواست دائر کریں گے۔ دوسری طرف آصف زرداری اور بقول عدالت عظمیٰ ان کے فرنٹ مین انور مجید کی بھی پیر کے روز ہی خوب درگت بنی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ جو سوشل میڈیا پر پیر کے روز وائرل ہو گئی لیکن باقاعدہ طور پر ملزمان کے حوالے نہیں کی گئی اس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ بلاول ہاؤس لاہور اور آصف زرداری کے دیگر اخراجات اومنی گروپ کے کھاتے سے ہی ادا ہوتے تھے اور 42 ارب روپے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منتقل ہوئے۔ بھرپور میڈیا ٹرائل اور چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس حوالے سے جو ریمارکس دیئے ان کو مدنظر رکھا جائے تو اس معاملے میں ذرا برابر شک نہیں رہتا کہ ملزم آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی جلد ہی مجرم قرار دئیے جائیں گے۔ جیسا کہ پہلے کالموں میں بتایا جا چکا ہے کہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے فیصلے ’’آسمانوں‘‘ میں لکھے جا چکے ہیں، انہیں خلق خدا تبدیل نہیں کرسکتی۔ اس تناظر میں تو یہ بات واضح ہو گئی کہ نئے سال میں بھی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ملک شاید سیاسی محاذ آرائی میں پھنسا رہے گا۔ دونوں جماعتوں کے رہنما اس بات کا ارادہ کر چکے ہیں کہ وہ سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں کے لیے کوئی باہر نہیں نکلے گا لیکن جہاں تک نواز شریف اور شہباز شریف کا تعلق ہے وہ خود ہی محتاط انداز میں کھیلیں گے اور مسلم لیگ (ن) زیا دہ تر اپنی توجہ پارلیمنٹ کے اندر جدوجہد پرمرکوز رکھے گی۔ جہاں تک آصف زرداری کا تعلق ہے کہ ان کی پارٹی شاید ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سندھ کارڈ استعمال کر نے پر مجبور ہو جائے کیونکہ زرداری کے علاوہ برخوردار بلاول کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے جیسا کہ میاں نواز شریف نے بھی سزا سنائے جانے کے بعد کہا کہ انھوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور نہ ہی کوئی کرپشن کی ہے، ان کے خلاف تمام کارروائی انتقامی ہے۔ قریباً اس سے ملتا جلتا استدلال پیپلزپارٹی کا بھی ہے۔ بلاول بھٹو نے اپنے بیان میں احتساب کی یکطرفہ کارروائی کی نشاندہی کی ہے۔ انھوں نے یہ جائز سوال جو ہر کوئی اٹھا رہا ہے کہ کیا صرف اپوزیشن کے سیاستدان ہی کرپٹ ہیں جبکہ حکومتی جماعت میں شامل لوگوں کو ہاتھ نہیں لگایا جا رہا۔ اس الزام میں کسی حد تک صداقت ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں سے نیب بڑے پیار سے پوچھ گچھ کرتی ہے اور انھیں چائے پلا کر گھر بھیج دیا جاتا ہے جبکہ نواز شریف، شہباز شریف، خواجہ برادران سب کا مقدر جیل ہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ العزیزیہ ریفرنس جس میں سزا ہوئی ہے، یہ وہ سٹیل ملز ہے جو جدہ میں نواز شریف کے برخوردار حسین نواز نے اس وقت لگائی جب پورا شریف خاندان جدہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اس ریفرنس میں دی گئی سزا کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس کو جواز بنالیا جائے تو ہر پاکستانی جو باہر انویسٹمنٹ کرتا ہے نیب کے ریڈار پر آ جانا چاہئے۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ العزیزیہ جو پہلے ہل میٹل تھی کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟ استغاثہ کا سیدھا سادا کیس ہے کہ یہ رقم نواز شریف کی تھی جس کے بل بوتے پر حسین نواز نے یہ سٹیل ملزلگائی اور بعدازاں اسی پراجیکٹ سے کمائے پیسے میاں نواز شریف کو بھیجے جاتے رہے۔ نیب کے مطابق سابق وزیراعظم اس حوالے سے کوئی فول پروف منی ٹریل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان معاملات کاجواب تو اب اپیل کے موقع پر فراہم ہوسکے گا۔ فی الحال تو نواز شریف کا مکو ٹھپ دیا گیا ہے اور آصف زرداری کا بھی ٹھپے جانے والاہے۔ اس صورتحال پر تحریک انصاف کی لیڈر شپ بغلیںبجا رہی ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید جو اپنے مخصوص فقرے بازی کی آڑ میں حقائق کو حائل نہیں ہونے دیتے، اب بھی این آر او نہ دینے کی رٹ لگا رہے ہیں۔ پہلے انھوں نے درفنطنی چھوڑی تھی کہ نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم کے لیے این آر او مانگ رہے ہیں۔ اب ان کا فرمانا ہے کہ تہمینہ درانی اپنے شوہر شہباز شریف کے لیے این آر او کی تگ و دو کر رہی ہیں۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ یہ لوگ معاشی قاتل اور غدار ہیں، چور اور ڈاکوؤں نے قوم کو یہاں تک پہنچایا، یقین ہے اب احتساب کا عمل تیز ہوگا، شہبازشریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے۔ چور اچکے دوبارہ چودھری بنیں گے تو مسائل کا حل چاہنے والوں کو مایوسی ہو گی، نواز شریف کی ٹائمنگ ہمیشہ غلط ہوتی ہے، کیس لڑنے کے حوالے سے آصف زرداری سے ہی سیکھ لیتے، جب لڑنے کا وقت ہوتا ہے یہ این آر او مانگتے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کسی حد تک درست کہتے ہیں کہ نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری اگر معصوم ہیں تو پھربدمعاش کون ہے کیونکہ جس انداز سے براہ راست اداروں اور میڈیا کے ذریعے متذکرہ بالا حضرات کی مسلسل کردار کشی ہوئی ہے، اس حوالے سے ان کا بچ جانا واقعی معجزہ قرار دیا جاتا۔ لیکن دوسری طرف نواز شریف کا کہنا کہ ’مجھے کیوں نکالا‘ میں تو معصوم ہوں، بھی درست نہیں ہے۔ ان کا انداز حکمرانی مغلیہ دور کے شہزادوں سے زیادہ ملتا تھا، اسی بنا پر آصف زرداری انھیں کہتے تھے کہ مغل اعظم نہیں وزیراعظم بنیں۔ نہ جانے کرپشن ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کا کیا معیار ہے۔ سرکاری خزانے کو لٹانا، لاکھ لاکھ روپے تنخواہ لینے والے افراد کو دس گنا تنخواہ دینا، لوٹ مار کو نہ روکنا، اسے کرپشن نہیں تو نرم سے نرم الفاظ میں امانت میں خیانت ہی کہا جائے گا۔ پاکستان میں حکمرانوں کی جوابد ہی کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہو گا یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ باوجود اس کے کہ نوازشریف اور آصف زرداری کے طرز حکمرانی کی غیرشفافیت پر جائز طور پر انگلیاں اٹھتی ہیںلیکن جس انداز سے ان کا احتساب کیا گیا ہے اس سے انتقام کی بو آتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی بذات خود شہرت ایک ایماندار شخصیت کی ہے۔ انھیں پارلیمنٹ کے ذریعے نیب کی جگہ ایک صاف شفاف اور بلاامتیاز احتساب کے نظام کی داغ بیل ڈالنی چاہیے اور جیساکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انتقامی سیاست کے قائل نہیں ہیں، جادو وہ جو سر چڑھ کر بو لے انھیں اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ ایسا ہی چاہتے ہیں۔ ابھی تو جو بساط بچھائی جارہی ہے اس کے مطابق تو ملک کو یک جماعتی نظام کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فی الحال اس سوانگ کے دولہا تو عمران خان ہی ہیں، لیکن آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔ ویسے تو ماضی میں پاکستان کو ’ون پارٹی‘ سٹیٹ بنانے کی کوششوں کے تباہ کن نتائج ہی برآمد ہوئے ہیں۔ اس مرتبہ بھی عاقبت نااندیشانہ اقدامات کامیاب نہیں ہوں گے۔ لیکن اگر ہم سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئے تو اس کا کیا فائدہ؟۔ یقینا نواز شریف نے نیب قانون کو اس لیے نہیں چھیڑا کہ اسے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔ عمران خان کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ اس قسم کی وقتی مصلحتوں کاشکار نہیں ہیں۔ یہ تاثر کہ اس وقت عمران خان کوکامیاب بنانے کے لیے ریاست ان کی راہ میں ہر ممکنہ رکاوٹ کو ہٹا رہی ہے، بطور سیاستدان ان کے لیے اچھا نہیں ہے۔