درویش اپنی تعریف سن کر بولا کہ کبرِ پارسائی سب سے بڑا گناہ ہے۔ بات یہ ہے کہ خیر کسی بھی زبان سے ادا ہو وہ خیر ہے۔ دوسری بات یہ کہ کسی کے ماضی پر اس کا حال نہ دیکھا جائے ہدایت کی گنجائش تو ہر وقت موجود ہے اور بھٹکنے کے بارے میں آپ تھوڑی طے کرتے ہیں ۔ معزز قارئین! میں نے جب یہ سنا کہ کبرِ پارسائی سب سے بڑا گنا ہے تو مجھے اسی وقت ایک گونا اطمینان ہو گیا کہ شکر ہے اس کبر کی میرے اندر تو کوئی گنجائش ہی نہیں۔ یہ فکر تو عالم فاضل لوگوں کو کرنی چاہیے ایک بات میں نے اس حوالے سے ضرور سوچی کہ ہم کسی کی تعریف کرنے کے لیے کسی دوسرے کی بد تعریفی کیوں کرتے ہیں۔ ہم اپنے ممدوح کے سامنے دوسروں کو سرنگوں کیوں کرتے ہیں۔ شاید اس انداز میں لطف زیادہ ہے۔ ایسے ہی جیسے اپنے مومن بھائی کا گوشت بہت لذیز ہوتا ہے یعنی ہم بڑے مزے لے لے کر غیبت کے عمل سے گزرتے ہیں۔ میر نے کیا کمال بات کہی تھی کہ: آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دل منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں جناب احمد ندیم قاسمی کے پاس بیٹھا تھا۔ گپ شپ چل رہی تھی کبھی کسی کی بات چلتی تو کبھی کسی کی۔ رو میں آ کر میں نے بھی ایک خاتون کی سرگرمیوں کا ذکر کر دیا۔ آپ اسے میری نادانی کہیں یا محفل کے لوازمات‘ کچھ بھی کہہ لیں۔ پاس ہی سے ایک آواز میرے کانوں آئی’’واللہ ستار العیوب‘‘ یہ منصورہ احمد تھیں۔ وہ لمحہ میں کبھی نہیں بھولا اس نے نہ مجھے مخاطب کیا تھا اور نہ ہی میں اس طرف متوجہ تھا مگر یہ ایک بے نام سی تعلیم تھی یا تربیت یا اک اشارہ۔ وہ دن اور آج کا دن جب بھی میرے ذہن میں ایسی فضول بات کرنے کی خواہش پیدا ہو تو کہیں سے آواز آ جاتی ہے’’واللہ ستار العیوب‘‘ اللہ پردے ڈالنے والا ہے۔ مجھے یہاں عدیم ہاشمی بھی یاد آ رہے ہیں۔ جب میں ان کی تیمار داری کرنے کے لیے شیخ زید ہسپتال گیا تو وہ دوسروں کے کچھ شکوے شکایت کرتے رہے اور جب میں اٹھ کر آنے لگا تو ہنس کر کہنے لگے‘‘یار سعد! کل پھر آنا ہم پھر کچھ غیبتیں کریں گے‘ میں نے کہا ’’جناب ! جو بھی آپ کی صحت کے لیے بہتر ہے وہ ضرور کریں گے‘‘ پھر ہم دونوں نے قہقہہ لگایا اور میں وہاں سے رخصت ہوا۔ وہ کیا ہی اچھا شاعر تھا: تمام عمر کا ہے ساتھ آب و ماہی کا پڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں آئے جب میں کالم تحریر کر رہا ہوں پہلا روزہ ہے‘ ساڑھے نو بجے کا وقت بجلی نہیں ہے مگر یہ کوئی انہونی نہیں جو میں آپ کو بتا رہا ہوں۔ اخبار میں کئی علاقوں کا حال درج ہے کہ جہاں چودہ چودہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ‘ رمضان سے ایک روز قبل تو ایک بڑا بریک ڈائون تھا یعنی جیسے کہ کسی کا نروس بریک ڈائون ہو جائے بہت سے کام تھے جو رمضان کے آغاز سے پہلے نمٹانے تھے مگر اب تو ہر کام بجلی کا مرہون منت ہے۔ یعنی پانی تک غائب ہو جاتا ہے۔ جب پانی مسجدوں سے بھی غائب ہو جائے تو لوگ تیمم پر اتر آتے ہیں۔ مگر شکایت کس سے کریں کسی سے کچھ کہیں تو جواب ملتا ہے کہ نواز شریف کو یاد کرو‘ پتہ نہیں یہ جواب کہاں تک مناسب ہے مگر جو نامناسب بلکہ خوفناک بات میاں صاحب نے کہہ دی اور خون ن لیگیوں کے بے حال کر گئی‘ رفتہ رفتہ وہ ان کا منشور بنتی جا رہی ہے میں اس پر بحث نہیں کروں گا کہ پہلے ہی میں اپنا موقف بیان کر چکا ہوں میں تو رمضان شریف کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے روزے کے لیے پونے تین بجے بیدار ہوئے تو پتہ چلا کہ گیس نہ ہونے کے برابر آ رہی ہے۔ افراتفری پڑ گئی کہ روزہ کیسے رکھیں۔ بیٹے کو فوراً بازار بھیجا اور پراٹھے منگوائے۔ بات یہ کہ جہاں قریب یہ سہولت مہیا نہیں وہ کیا کریں گے۔ یہ لکھنا بھی بے معنی سی بات لگتی ہے کہ پھل مہنگا ہوگیا کہ یہ تو روٹین ہے بلکہ ہم مسلمانوں کی تخصیص ہے کہ ہم رمضان لگاتے ہیں یعنی یہ لوٹ مار کا سیزن ہے۔ ایک تو یہ لوگ ظالم ہیں جو منافع خوری کی حدوں کو چھوتے ہیں اور ایک ہم بھی صبر اور برداشت نہیں کہ اپنے نفس پر لگام ڈال دیں۔ حالانکہ روز صبر اور تقویٰ کا سبق دیتا ہے۔ اگر ہم پرتکلف افطاری نہیں کریں گے تو قیامت نہیں آ جائے گی۔ ہم بھی تو کمال ہیں کہ پورے گیارہ مہینوں میں ملا کر اتنا نہیں کھاتے جتنا صرف ایک رمضان کے مہینے میں ہضم کر جاتے ہیں اور افطاری پر سب سے زیادہ خشوع و خضوع سے جو بیٹھتے ہیں وہ اکثر بے روزہ دار ہوتے ہیں۔ روزہ کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کل ہی میں جمیل احمد عدیل اور ڈاکٹر اصغر یزدانی بیٹھے روزہ پر بات کر رہے تھے۔ عدیل صاحب کا خاصہ مطالعہ ہے۔ فرما رہے تھے رمضان تو نکلا ہی گرمی سے ہے کہ یہ شدید گرمی کے موسم کا عمل ہے جو برداشت کرنا مشکل ہوتی ہے۔ عرب میں تو گرمی بھی جان نکال دینے والی ہے۔ حضرت علی ؓ کی بات یاد آئی کہ انہیں گرمی کے روزے اور جاڑے کی نماز پسند ہے۔اصل میں یہ ایک ٹریننگ ہے۔ انسان کے اندر برداشت کی استعداد پیدا کرتا ہے۔ یہ سارے فوائد تو اضافی ہیں۔ اصل مسئلہ تو تقویٰ ہے کہ فسق و فجور کے ہر عمل سے اجتناب کیا جائے۔ خود کو خیر کا عادی بنایا جائے۔ اللہ نے تو صاف کہہ دیا کہ اسے ہماری بھوک پیاس سے کچھ غرض نہیں اس تک تو ہماری نیت اور خلوص پہنچتا ہے۔ یہ روزہ تو اپنے لوازمات کے ساتھ ہے جہاں نیکی اور پاکیزگی کی فضا ہے۔ اللہ کی رضا کی طرف روزہ دار یکسو ہوتا ہے۔ اگر آپ کے معمولات وہی ہیں تو آپ نے مہمان کی قدر نہیں کی۔ یہ بتانے کی ضرورت چنداں نہیں کہ رمضان میں اپنے معمولات میں کیسے اعمال داخل کر لینے چاہئیں۔ آپ خود سمجھدار ہیں۔ وہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل ؑ کی تین بددعائوں پر آپ نے آمین کہی تھی۔ جن میں ایک یہ تھی کہ اس کی ہلاکت ہو جس کی زندگی میں رمضان آیا اور وہ اپنی بخشش نہ کروا سکا۔ دوسرا وہ شخص جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکا۔ تیسرا وہ شخص جو حضورؐ کا نام سن کر درود نہیں بھیجتا یعنی ﷺ نہیں کہتا۔ یہ رمضان ہی کے طفیل ہے کہ خدا نے نوافل کو فرائض کے برابر کر دیا اور فرائض کا اجر کئی گنا بڑھا دیا۔ خیرات و صدقات کی پذیرائی اس ماہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ ذرا توجہ کریں تو دل نیکی کی طرف خود بخود مائل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس مہینے میں شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں مگر ہم اس کی ٹریننگ شدہ سرگرمیاںاپنے طور پر بھی جاری رکھتے ہیں۔ سیاسی لوگوں کو بھی رمضان کے احترام میں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ نواز شریف تو کچھ زیادہ ہی ان ایکشن ہیں۔ بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں گھبرانے والا نہیں۔ لیکن پوری قوم گھبرائی ہوئی ہے کہ میاں صاحب کو کیا ہو گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف کے موجودہ مشکوک کردار نے ان کے اپنے لوگوں کو موقع دیا کہ وہ بہانہ بنا کر عمران کے ساتھ جا کھڑے ہوں۔ چلیے شہباز شریف اچھا کر رہے ہیں کہ اپنی دھن میں مست اورنج ٹرین کے افتتاحی سفر کا افتتاح کر رہے ہیں۔ اللہ کی شان کوئی تعمیر میں مصروف اور کوئی تخریب میں۔ رمضان کے مبارک مہینے میںاپنے ملک کی بقا اور خوشحالی کی دعائیں کرنی چاہیں۔ آخری بات یہ کہ دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلنے والے اتنا ضرور سوچ لیں کہ وہ لوگ جسے کھلونے کی طرح استعمال کرتے ہیں یا اس سے کھیلتے ہیں۔ کھلونا توڑ کر بھی لطف اٹھاتے ہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا: ’’میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں‘‘ کالم کے اختتام پر حمد کے دو اشعار جو خانہ کعبہ کے بارے میں ہیں کہ وہاں اجتماعیت کا پیغام ہے۔ رنگ سارے ہی یہاں جذب ہوئے جاتے ہیں اور گردش میں جہاں بھر کا اجالا ہے جہاں والہانہ کوئی پتھر کو کہاں چومتا ہے اس محبت میں محمدؐ کا حوالہ ہے میاں