بھارتیوں کی بھاری اکثریت نہیں تو بھی خاصی بڑی تعداد کو سو فیصد یقین تھا کہ ان کے طیاروں نے کامیاب آپریشن کیا ہے اور پاکستانی علاقے میں جا کر ایک کیمپ کو تباہ کر دیا ہے جس میں تین سو یا اس سے بھی زیادہ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ ان لوگوں نے ملک بھر میں جشن منایا اور جلوس نکالے،شہروں میں مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نعرے لگائے۔ بالعموم ہر جلوس سو ڈیڑھ سو افراد پر مشتمل تھا۔ کہیں کہیں سینکڑوں لوگ بھی نکلے ہزاروں کا کوئی جلوس نہیں تھا۔ بھارتی میڈیا پر خوشی کا بخار بہت زیادہ چڑھا ہوا تھا اس کے ویڈیو کلپ دیکھ کر لگتا تھا کہ بھارت کے ایک ارب ہندو خوشی سے ناچتے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ جوں جوں دن ڈھلتا گیا۔ انہیں اپنا یقین ڈگمگائے ہوئے دکھائی دینے لگا۔ کہیں سے بھی تباہ شدہ کیمپ کی تصویریں آ رہی تھی نہ پتہ چل رہا تھا کہ کتنے دہشت گرد مارے گئے ہیں بلکہ سرے سے کوئی مارا بھی گیا ہے یا نہیں۔ رات گئے تک انہیں سمجھ آ چکی تھی کہ نہ کوئی کیمپ تباہ ہوا نہ کوئی مرا۔ بھارتی طیاروں نے بم جنگل میں گرا کے اپنا مشن مکمل کیا تھا۔ خوشی خاموش شرمندگی میں بدل چکی تھی۔ دن اور بھی ستم گر تھا۔ دو بھارتی طیاروں کی پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں تباہی۔ تین پائلٹوں کی ہلاکت اور ایک کی گرفتاری کی خبر نے جیسے انہیں آکاش سے دھرتی پر لاپٹکا۔ خوشیوں کی لنکا ڈھے چکی تھی۔ دیوالی کے دیے سوگ کی سموگ میں چھپ گئے۔ وہ یقین کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن یقین کرنا پڑ رہا تھا۔ اس کایا کلپ کے اندر سے ایک اور بات نمودار ہوئی۔ بھارت میں لوگوں کی اکثریت جنگ نہیں چاہتی۔ اسے پاکستان سے محبت نہیں لیکن وہ نفرت کے بخار میں بھی مبتلا نہیں۔ یہ اکثریت دبکی ہوئی تھی۔ فضا بدلی تو اس نے سوشل میڈیا پر نمودار ہو کر دنیا کو بتایا کہ ہم بھی ہیں اور ہم ان سے زیادہ ہیں جو نفرت اور جنون میں نیم پاگل ہو چکے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ بھارتی میڈیا کو کھنگالیے، پتہ چلے گا کہ جنوب کی ریاستوںمیں کوئی خاص جشن نہیں تھا۔ تمل ناڈو ‘ کیرل‘ کرناٹک‘ آندھرا میں عملاً ایک قسم کی لاتعلقی تھی یوں جیسے جنگ کی فضا دنیا کے کسی اور خطے کے دو ملکوں میں ہے۔ یہی کیفیت شمال مشرق کی چھوٹی بڑی سات ریاستوں کے علاوہ بنگال‘ اڑیسہ میں بھی تھی۔ بہار میں بھی بہت کم جشن دیکھا گیا۔ یو پی‘ مدھیہ ‘ چھتیس گڑھ اور جھاڑ کھنڈ میں بھی درمیانے سے ارتعاشات تھے۔ جشن کا زور دہلی ‘ پنجاب‘ ہما چل ‘ ہریانہ گجرات اور مہاراشٹر میں تھا۔ یا پھر مقبوضہ کشمیر کے علاقے جموں میں۔ گویا پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت کا سنٹر‘‘ یہی علاقہ تھا۔ راجستھان میں بھی کوئی ہلچل نظر نہیں آئی۔ ہاں‘ بھارت کا الیکٹرانک میڈیا پوری طرح بی جے پی اور سنگ پریوار کی گرفت میں تھا۔ تقریباً ہر چینل جوالا مکھی بنا آگ اور انگارے اگل رہا تھا۔ پاکستانی فضائیہ نے دو طیارے تباہ کر کے فضا بدل دی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان سے پیغام گیا کہ جنگ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ پیغام فوجی ترجمان نے دیا اور واضح کیا ہم جنگ نہیں چاہتے صرف اپنے دفاع کے پابند ہیں۔ اسی سہ پہر بھارتی وزیر خارجہ کا بیان بھی آیا کہ بھارت کشیدگی میں اضافہ کا خواہشمند نہیں۔ بظاہر لگا کہ بھارت کے ہوش ٹھکانے آ گئے ہیں اور اب وہ مصالحت پر آمادگی کا اشارہ دے رہا ہے لیکن سرحد کے ساتھ ساتھ اس کا جنگی بلڈاپ کچھ اور ہی کہانی بتا رہا تھا۔ ٭٭٭٭٭ نریندر مودی کے لئے کیا راستہ ہے؟ اگر وہ صلح کرتا ہے اور مذاکرات کی طرف آتا ہے تو اس کے ووٹ بنک کا کیا بنے گا جو پہلے روبہ زوال ہے۔ بالا کوٹ میں اس کے آپریشن سے ایک دن پہلے ہی یہ خبر آئی تھی کہ دو ماہ بعد ہونے والا الیکشن جیتنا مودی کے لئے مشکل ہو رہا ہے۔ امن کے ڈنکے بجائے تو بی جے پی کی انتخابی مہم اور پھیکی پڑ جائے گی۔ بھارت کا کچھ نہ کچھ کرنا مودی کی مجبوری ہے اور امریکہ کی ضرورت۔ ٭٭٭٭٭ جی بالکل۔ پاکستان اور بھارت میں ایک محدود جنگ امریکہ کی بڑی پرانی ضرورت ہے۔ آج کل کی بات نہیں‘ دو عشروں سے بھی پہلے کا ایک منصوبہ امریکی فائلوں میں دبا ہوا ہے۔ کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ بارہا خود امریکی پریس بتا چکا ہے۔ ایک ایسی محدود جنگ جو کنٹرول لائن پر رہے۔ سارے پاک بھارت بارڈر کو متاثر نہ کرے۔ ایٹمی جنگ کا کوئی سوال نہیں‘ کوئی اندیشہ نہیں۔ اسے روکنے کی پوری ضمانت موجود ہے۔ حالیہ بحران میں امریکی رویہ دیکھیے۔ وہ دونوں ملکوں کو تحمل کا مشورہ دے رہا ہے اور ساتھ ہی بھارت کو مسلسل تھپکی بھی۔ پرانا منصوبہ کیا ہے۔ یہ کہ کنٹرول لائن کی صورتحال آئوٹ آف کنٹرول ہو جائے‘ پھر امریکہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ مداخلت کریں۔ کشمیر کی خود مختاری کے نام پر اسے اپنے ’’عارضی‘‘ کنٹرول میں لے کر عالمی فوج کے سپرد کر دیں۔ یہ عالمی فوج اسی طرح امریکہ کے تابع ہو گی جس طرح افغانستان میں تھی اور ہے۔ خود مختار کشمیر میں گلگت بلتستان سمیت پورا آزاد کشمیر اور جموں کے سوا پورا مقبوضہ کشمیر شامل ہو گا۔ جموں کو بھارت کے پاس رہنے دیا جائے گا۔ دونوں ملکوں میں یوں ’’کشیدگی‘‘ ختم ہو جائے گی۔ خطہ پرامن اور مستحکم ہو جائے گا اور چین کا محاصرہ فول پروف بن جائے گا۔ افغانستان سے اٹھنے والے خطرات پر بھی نظر رکھی جا سکے گی اور وسط ایشیامیں پہلے سے موجود امریکی اثرات مزید موثر ہو جائیں گے۔ چین اور روس ایسا نہیں چاہتے‘ وہ اگرچہ حالیہ تنازعے میں ’’غیر جانبدار‘‘ ہیں لیکن ان کی کوشش ہو گی کہ جنگ نہ ہو۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ ہو‘ یورپی یونین امریکہ کا ساتھ دے گی۔ حالات اور ہمت کے مطابق۔ اس منصوبے میں پریشانی کی بات ایک ہی ہے۔ بلکہ محدودجنگ بھارت محدود نہ رہنے دے گا۔کولڈ سٹارٹ والی تھیوری میں سندھ کو کاٹنا شامل ہے۔ آنے والے دنوں میں کشیدگی بڑھتی نظر آتی ہے۔ بظاہر مودی کی انتخابی مہم کا حصہ لگتی ہے لیکن بات اس سے آگے کی ہے۔ خود مختار کشمیر میں بھارت کا نقصان کم۔ پاکستان کا زیادہ ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ شروع دن سے اس امریکی منصوبے کا علم رکھتی ہے۔