خیبر جانے کے لیے دوبارہ ٹور آپریٹر کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ ایک گروپ صبح ہو آیا ہے اب اتنے لوگ جانے کے لیے تیار ہوں گے تو دوسرے گروپ کا سوچا جا سکتا ہے۔سوچا جب تک خیبر جانے کا پروگرام بنتا ہے پاکستانی ڈسپنسری سے ہو آئیں کہ ٹھنڈا پانی پینے سے ہمارا گلہ اکثر خراب ہو جاتا ہے یہی اب ہوا۔ادھر ٹھنڈا پانی پیا ادھر گلہ خراب اور ساتھ ہی بخار۔اب بھی وہی ہوا۔ہمیں حج تربیتی کورس میں مولانا یوسف خان نے کہا تھا کہ جہاں ٹھنڈے یخ آب زم زم کے کولر ہوتے ہیں وہیں ساتھ زمین پر سادہ آب زم زم بھی موجود ہوتا ہے مگر شومئی قسمت وہ سادہ پانی والے کولر ہمیں نظر نہ آئے اور پیٹ بھر کر آب زم زم نوش کیا۔چند سیکنڈ کے بعد ہی گلہ پکڑا گیا۔ہوٹل الشام جہاں ہمارا قیام تھا اس کے ساتھ والی عمارت میں پاکستانی ڈسپنسری قائم تھی۔صبح کے دس گیارہ بجے ہوں گے۔رضوان بھائی کو ساتھ لیا۔دو قدم کا فاصلہ تھا۔ سوچا کوئی دوا وغیرہ مل جائے۔ویسے ہم ضرورت کی ساری دوائیں ساتھ لے کر گئے تھے۔مگر ڈاکٹر کو چیک کرانا بھی بسا اوقات سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔بسا اوقات اس لیے کہا ہے کہ عموماً آدمی خود ہی تندرست ہو جاتا ہے ڈاکٹر کا نام ہی چلتا ہے۔ مدینہ منورہ میں حجاج کے قیام کا انتظام نبی پاکﷺ کے روضے کے آس پاس کیا جاتا ہے۔حجاج کا یہاں قیام عموما آٹھ دس دنوں کے لیے ہوتا ہے سو ٹور آپریٹرز کے لیے اتنے دنوں کے لیے انتظام کرنا چنداں مشکل نہیں ہوتا۔گورنمنٹ سکیم والے کسی حاجی سے ہماری ملاقات تو نہیں ہوئی تاہم گمان اغلب ہے کہ وہ بھی یہیں رہائش اختیار کرتے ہیں۔نبی پاک ﷺ کے روضے کے آس پاس ہوٹلوں کی بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔اسی نواح میں ہر قسم کے ہوٹل موجود ہیں جیسے ایک دارالہجرہ انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل ہے ایک جوار المدینہ ہوٹل ہے۔جوار سے ہمارا دھیان قرب و جوار کی طرف گیا چونکہ یہ ہوٹل بھی روضہ پاک کے قرب و جوار میں واقع ہے تو اس کا معنی وہی ہو گا جس کی طرف ہمارا دھیان گیا تھا۔مدینہ ہلٹن ہوٹل بھی آس پاس ہی ہے وہاں ایک دن کے لیے ایک کمرہ کم وبیش چالیس پچاس ہزار میں پڑتا ہے۔ان بڑے ہوٹلوں میں زیادہ تر افریقی ممالک کے حجاج ہی نظر آتے ہیں۔ہم نے تو یہی سن رکھا تھا کہ افریقہ انتہائی غریب ممالک پر مشتمل براعظم ہے مگر ان سیاہ رنگ کے حجاج کے زرق برق لباس اور صحت وغیرہ سے قطعا یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ افریقہ ایک غریب بر اعظم ہے۔چونکہ نبی پاک ﷺ کے شہر میں عام لباس ہی زیب تن کیا جاتا ہے اور یہاں سے مکہ جاتے ہوئے احرام باندھا جاتا ہے سو ان حجاج کی سیاہ رنگت پر سفید زرق برق لباس بہت سجتا تھا۔اس کے مقابلے میں ہم پاکستانیوں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ کم سے کم لباس کے جوڑے ساتھ لے کر جائیں۔ہم نے دیکھا کہ ہمارے کئی ساتھیوں نے پورا ہفتہ ایک ہی لباس زیب تن کیے رکھا۔چونکہ ہم سے حجاج خود ہی کپڑے دھوتے تھے اس لیے دھونے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ایک ہی لباس کافی و شافی سمجھتے تھے۔زیادہ تر دوست واش روم میں روزانہ کپڑے دھوتے تھے۔ہمارے کرنل شاہد تو اپنی بیگم کے بھی کپڑے دھوتے تھے۔فوجی بھائیوں کے اس جذبے کو ہم سلام پیش کرتے ہیں مگر ذرا دور سے کہ ہم زندگی بھر خود کبھی اس نیک کام کا اہتمام نہیں کر سکے امید ہے آئندہ بھی اسی راستے پر چلیں گے۔البتہ مکہ میں رہائشیں بہت دور دور رکھی گئیں کہ وہاں تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے یہاں مدینہ پاک میں ایسا نہیں۔مکہ میں اتنے لوگ ہوٹلوں میں سما بھی نہیں سکتے۔مدینہ میں کچھ حجاج حج کے دنوں سے پہلے اور کچھ حج کے بعد آتے ہیں لہذا یہاں ہوٹلز میں کافی گنجائش نکل آتی ہے۔ہمارا الشام ہوٹل بھی نزدیک ہی تھا اور دو تین منٹوں میں ہم مسجد نبوی میں پہنچ جاتے تھے۔ اسی لیے یہاں ڈسپنسری کا انتظام کیا گیا تھا۔ ڈسپنسری میں گئے تو وہاں تین آدمیوں کا عملہ پایا۔ایک ڈاکٹر جن کا نام ان کی نیم پلیٹ پر لکھا تھا ڈاکٹر اظہر مجید انیستھیسیسٹ، دوسرے رانا صاحب ڈسپنسر اور تیسرے ایک پٹھان قاصد۔الا ماشااللہ جب ہم ڈسپنسری میں داخل ہوئے تو لگا پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں۔یعنی نہ سلام نہ دعا ایسے لگ رہا تھا ہم ان کے کسی ضروری کام میں مخل سے ہو رہے ہیں۔بالکل اپنے ملک کا نظام چل رہا تھا ذرہ برابر بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔جیسے یہاں ہمارے سرکاری دفاتر اور ہسپتال ہیں ویسا ہی ماحول تھا نہ ایک سوتر کم نہ ایک سوتر زیادہ۔ سارے یعنی وہ تینوں ملازم ہم لوگوں کی ہی طرح واٹسایپ پر مصروف تھے اسی لیے کسی نے نظر اٹھا کر ہمیں دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا۔جو ایک طرف خان صاحب بیٹھے تھے وہ بھی اسی تندہی سے کوئی کلپ وغیرہ دیکھ رہے تھے۔ہمارا وہاں جانا ان کو ناگوار تو گزرا ہی تھا اب مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق واٹسایپ میز پر رکھ دیے۔ڈاکٹر صاحب کی دیکھا دیکھی سب نے واٹسایپ بند کر کے میز پر رکھ دیے۔ اب داکٹر اظہر مجید صاحب گویا ہوئے جی فرمائیے۔ ہم ان کی نیم پلیٹ پڑھ چکے تھے اور اب بھی ہماری توند کے برابر ان کے نام کی تختی پڑی تھی۔عرض کیا حضور والا آپ تو بیہوش کرنے والے ڈاکٹر ہیں۔جھنجھلا سے گئے۔رضوان بھائی نے پوچھا آپ دوا دینے سے پہلے بے ہوش تو نہیں کرتے؟ تھوڑے سے شرمندہ شرمندہ نظر آئے۔ان کے احوال دیکھ کر ہماری ساری سنجیدگی غائب غلہ ہو چکی تھی۔ ہم نے کہا نہیں دوا کھانے کے بعد مریض خود بخود بیہوش ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر صاحب سے نسخہ لکھوایا اٹھنے لگے تو کوہاٹ کے پٹھان بھائی سے کہا پانی کا ایک گلاس ملے گا۔ساتھ ہی کہا پلیز ٹھنڈا پانی نہ پلانا اپنے پشتو لہجے میں کہنے لگا لالہ گرم تو خراب ہے۔ دل کیا کہ پوچھیں کب سے خراب ہے؟ مگر چپ سادھ لی کہ ہم پاکستانی ایسے نہ ہوں تو غیر ممالک میں کیسے پہچانے جائیں۔(جاری ہے)