وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے مدارس اصلاحات کے ضمن میں حکومتی اقدامات پر ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیر اعظم نے علماء کرام کو آگاہ کیا کہ حکومت مدارس کے لئے انقلابی اصلاحات لا رہی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں دینی تعلیم فراہم کرنے والے مدارس میں 31لاکھ کے قریب طلبا زیر تعلیم ہیں۔ ریاست کی سہولیات سے محروم طالب علموں کی یہ بڑی تعداد دوسرے طلبا کی طرح جدید اور اعلیٰ تعلیم کی حقدار ہے۔ہر سال لاکھوں طلباو طالبات ان مدرسوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں لیکن مدارس کے نصاب میں ان کی سماجی و معاشی زندگی پر توجہ نہ ہونے کے باعث یہ طلباء مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد 30ہزارسے زائد ہے۔ پاکستان آزاد ہوا تو یہاں 247مدارس موجود تھے۔ مدارس کی تعداد میں یکایک 1980ء سے اضافہ ہونے لگا۔1980ء میں یہ تعداد 2061 تھی جو اب 30ہزار تک جا پہنچی ہے۔ افغانستان کی جنگ اور ایران میں انقلاب کے باعث پاکستانی مدارس خوب پھلے پھولے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ان ہزاروں مدارس نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنا کردار تبدیل کیا اور پاکستان کی عمومی پالیسی کی پیروی کی۔ صرف 100کے قریب ایسے مدارس ہیں جہاں انتہا پسندی اور تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پاکستان میں غربت اور افلاس کی وجہ سے بہت سے بچے سکول جانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ریاست کے پاس تعلیم جیسی بنیادی سہولت فراہم کرنے کے وسائل نہیں اس لئے سب حکومتیں مدارس کو تعلیم کی فراہمی کا مددگار ذریعہ تصور کرتی رہی ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں‘ پرائیویٹ اداروں اور مدارس کے باوجود ڈھائی کروڑ بچے سکولوں میں نہیں جا رہے۔ یہ سکول نہ جانے والے بچوں کی عالمی درجہ بندی میں دوسری بڑی تعداد ہے۔ دنیا میں تعلیمی ترقی کے انڈکس میں پاکستان 129ممالک میں 113ویں نمبر پر ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس میں میجر جنرل آصف غفور نے بتایا تھا کہ مدارس کو مضحکہ خیز انداز میں وزارت صنعت کی نگرانی میں رکھا گیا ۔ اب ان مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ مدرسہ اصلاحات کے ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ فارغ التحصیل طلباء کے پاس پیشہ وارانہ تربیت نہیں ہوتی لہٰذا دینی تعلیم سے آراستہ یہ لوگ مزید دینی مدارس بنانے یا کسی ایسی تنظیم کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو ان کی تعلیم کو مسلکی ‘مذہبی اورسیاسی تشدد کا راستہ دکھاتی ہے۔ وزیر اعظم چند روز قبل اعلان کر چکے ہیں کہ مدارس میں 300سکل لیبارٹریز قائم کی جا رہی ہیں جہاں طلباء کو روزی روٹی کمانے کے مختلف ہنر سکھائے جائیں گے۔ اتحاد تنظیمات مدارس کے ساتھ کئی معاملات پر حکومت کا اتفاق ہو چکا ہے۔ نصاب کے معاملے پر کچھ تفصیلات طے پانا باقی ہیں۔ تنظیمات مدارس کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد نصاب صوبائی اختیار میں آ چکا ہے اس لئے صرف وفاقی حکومت اس سلسلے میں فیصلے کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ وفاق کو صوبائی حکومتوں کے نمائندے اس اصلاحاتی عمل میں شریک کرناہوں گے۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے نصاب مرتب کرنے کے لئے جو ماہر علماء منتخب کئے جاتے ہیں۔ تنظیمات مدارس ان کی بجائے اپنے علماء کو یہ کردار عطا کرنا چاہتی ہے ۔دینی مدارس کی تنظیم کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ذریعہ تعلیم اردو کیا جائے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ مدارس اصلاحات کا عمل کثیر الجہتی ہے۔ مدارس کا نصاب‘ نظم و ضبط اور عملے کی اہلیت کے پہلو ہیں‘ جن میں بہتری کی گنجائش ہے۔ مدارس سے فارغ التحصیل طلبا کے روزگار اور انہیں معاشرے کے عمومی قانون کا پابند بنانے کے لئے کوششوں کی ضرورت ہے۔ ایک معاملہ ان طلباء کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے پر پابندی کا ہے۔ غریب والدین کے ان بے آسرا بچوں کو غیر ضروری لڑائیوں میں دھکیل دینے والے ان کے مستقبل سے کھیل کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ سب سے اہم معاملہ ان مدارس کو دیے جانے والے چندے اور عطیات کا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے لئے استعمال رقوم کی منتقلی روکنے کے لئے پاکستان کو ابھی مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایف اے ٹی ایف نے منگولیا‘ آئس لینڈ اور زمبابوے کو گرے لسٹ میں شامل کر دیا ہے جبکہ سری لنکا‘ تیونس اور ایتھوپیا کو تسلی بخش اقدامات پر گرے لسٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ پاکستان میں مدارس کی بڑی تعداد سیاست کرنے والے علماء کی گرفت میں ہے اس لئے جب کبھی مدارس اصلاحات کی بات ہوئی حکومت کے خلاف تحریک شروع کر دی جاتی ہے۔ مدارس کو بیرون ملک سے عطیات ملتے ہیں۔ اندرون ملک سے کروڑوں روپیہ ان کو بطور عطیہ فراہم کیا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے سب مدارس کو نہ سہی کچھ کو مختلف ضرورتوں کے لئے فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں بہت سے مدارس میں کمپیوٹر لگائے گئے لیکن یہ تمام اقدامات وقتی ثابت ہوئے۔ ہمارے دشمن ان عطیات کو دہشت گردی کے لئے فراہم رقوم قرار دے کر پاکستان کے لئے مستقل مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ عطیات اورخیرات کی رقوم کی شفاف منتقلی اور استعمال کا ریکارڈ صرف مدارس کی ضرورت نہیں یہ قومی سلامتی کا معاملہ بن چکا ہے۔ حکومت اس سلسلے میں تمام تنظیموں کو جلد اعتماد میں لے کر ایف اے ٹی ایف کی تلوار سے بچنے کا انتظام کرے۔