کل شام ہم نے یونہی بیٹھے بٹھائے غور کیا کہ آج کل فی زمانہ کون کون سے فیشن عروج پر ہیں؟ بہت سوچنے پر بھی ہمیں تین سال پہلے کی تو کوئی بات یاد نہ آئی البتہ یہ ضرور پتہ چل گیا کہ ان دنوں موجودہ وزیرِ اعظم کی ذات، کردار اور اعمال میں سے خامیاں، کوتاہیاں اور نالائقیاں تلاش کرنا میڈیا اور سوشل میڈیا کا من پسند شیوہ ہے۔ اس بات پر تو ہمیں باقاعدہ شرم محسوس ہوئی کہ آخر ہم بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہم نے ابھی تک اس دوڑ میں بڑھ چڑھ کر شمولیت اختیار کیوں نہیں کی؟ حالانکہ یہ تو ایسا مضحک مشغلہ ہے کہ اس کے لیے کسی طرح کی فرسٹ ہینڈ معلومات یا اُن کی تصدیق کی بھی ضرورت نہیں۔ اس جلتی پر تیل ڈالنے کے لیے تو اقتدار کے لیے ہاتھ مَلتے اپوزیشن لیڈروں کے چند بیانات، کسی چینل کا غرّاتا ہوا ایک آدھ ٹاک شو یا کسی گھسے پٹے کامیڈی شو کے پاڈے بھانڈوں کی پھیکی سی سیاسی جُگتیں ہی کافی ہیں۔ ہمیں تو اس کے لیے زیادہ تردد کی بھی ضرورت نہ تھی کہ ہمارے پاس لالہ بسمل جیسے کثیرالمقاصد دوست اور حکیم جی جیسے فقیدالمثال بزرگ پہلے سے موجود تھے۔ چنانچہ اس فرض کی تکمیل کی خاطر پہلی فرصت میں ان دونوں ’حضرات الارض‘ کو بڑے پائے کے ناشتے پہ مدعو کیا اور خالی پیٹ اپنا مدعا بیان کیا۔ وہ تو لگتا ہے پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے، انھوں نے نہ تو پائے کے شوربے سے اٹھنے والی اشتہا انگیز بھاپ کی پروا کی اور نہ گرما گرم کلچوں سے برآمد ہوتی خستگی آمیز سوندھی خوشبو کی، بس پینسٹھ کلومیٹر کی رفتار سے رواں ہو گئے (حالانکہ باہر سڑک پہ واضح طور پر لکھا تھا؛ آہستہ چلیں آگے آبادی ہے۔) پون گھنٹے کے ناشتے ہی میں راقم کو اتنی معلومات فراہم کر دی گئیں، جو اس موضوع پر سال بھر لکھتے رہنے کے لیے کافی تھیں لیکن فی الحال ہم اس کی ایک ہلکی سی جھلک پر اکتفا کریں گے۔ انھوں نے ارشاد کیا کہ وزیرِ اعظم سے پہلی غلطی تو یہ ہوئی کہ انھوں نے پل بھر میں زیرو کو ہیرو، چور کو مور، ریت کو کھیت،خشکی کو مشکی، قہر کو مہر بنا دینے والے ’موافق‘ صحافیوں کو چند ارب کی گھاس ڈالنا بھی مناسب نہیں سمجھا، نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کے کارناموں کو چار تو کیا ڈیڑھ دو چاند بھی نہ لگ سکے۔ دوسرا پنگا یہ لیا کہ آج تک جو پاکستانی حکومتیں مخولیات پہ چل رہی تھیں، انھوں نے آتے ہی خواہ مخواہ ماحولیات کا شوشا چھوڑ دیا۔ ملین ٹریلین ٹری سکیمیں جاری کر دی۔ وطنِ عزیز کے چند مخلص سیاست دان اگر بہت سے درخت نُکرے نہ لگا لیتے تو نہ صرف کسی عالمی ریکارڈ کا خطرہ پیدا ہو چلا تھا بلکہ ان صاحب سے تو یہ بھی بعید نہ تھا کہ اسمبلی ہال کے اندر درخت لگوا کے اے سی وغیرہ بھی بند کرا دیتے۔ جس سے نوے فیصد اراکینِ اسمبلی کے آرام و سکون کا ستیاناس ہو جاتا۔ سیاحت امرا کا مشغلہ تھا، اس میں کووڈ کے باوجود تین سو گنا کا اضافہ کر کے غریب غربا کو بھی اندر گھسیڑ دیا۔تیسرا گناہ تو تقریباً ناقابلِ معافی ہے کہ ابھی وزرا یا اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں سابقہ معمول کے مطابق اضافے کی سمری ہی تیار ہوتی ہے تو یہ حضرت ٹیم کو مبارک دینے کی بجائے فوری نوٹس لے لیتے ہیں، کیسے جی دار تھے وہ حکمران کہ جنھوں نے کبھی کرپشن تک کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ انھیں کچھ تو احساس ہونا چاہیے کہ یہ شرفا لاکھوں کروڑوں خرچ کر کے اس منزل تک پہنچے ہیں، یہ سُکی سڑی تنخواہ لے جا کے گھر اور حلقہ والوں کو کیا منھ دکھائیں گے؟ چوتھا ستم یہ کیا کہ پنجاب جیسے ’کھرولے‘ صوبے میں ایک مسکین سے آدمی کو وزیرِ اعلیٰ بنا دیا، جس کی شرافت اورسادگی لوگوں کے لیے وبالِ جاں بنی ہوئی ہے۔ کون بتائے کہ سیاست کے کوچے میں شرافت سے زیادہ شر اور آفت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس اَن جھَک پرائم منسٹرنے دنیا کے سب سے بڑے چودھری کو بیٹھے بٹھائے سیدھا سیدھا Absolutely Notہی کہہ دیا، یعنی انھی کی زبان کے دو شارٹ پچ الفاظ انھی کے کلین شیو منھ پر ٹھک کر کے دے مارے۔ کیسی حماقت ہے کہ سوال پوچھنے والے صحافی کو ہیلمٹ پہننے کا موقع بھی نہیں دیا۔حالانکہ انکل سام سے ذاتی قسم کے فائدے اٹھانے کا یہ کتنا اچھا موقع تھا؟ تایا جو بائیڈن کے ساتھ اپنے بچوں کی سیلفیاں بنائی جا سکتی تھیں۔پھر اسی بے تکلفی کی آڑ میں تعلیم، صحت، غربت کے نام پر فنڈز لے کے اپنے کئی طرح کے کاروبار چلائے جا سکتے تھے، غلط انگریزی میں دال گوشت نہ سہی، صحیح انگریزی میں کریلے قیمہ ہی کی دعوت ہی دے دیتے، امریکی صدر کی صحت اور عمر کے لحاظ سے پاکستانی قوم کی انا اورغیرت کا پَپّا بنا کے کھلایا جا سکتا تھا، جو بائیڈن بے چارہ بھلا کتنا کُو کھا لیتا؟پھر یہ بھی کتنی بڑی غلطی خان سے سر زد ہوئی کہ بل گیٹس نے اپنی بیوی کو دنیا جہان کے سامنے، اربوں ڈالر سمیت طلاق دی۔ حالات سے فائدہ اٹھانے کا یہ بھی کیسا نادر لمحہ تھا؟ حالانکہ اس سے نہ صرف بین الاقوامی نوعیت کا ثوابِ دارین حاصل ہوتا بلکہ جہیز کی رقم سے وطنِ عزیز کا سارا قرضہ مفت میں اتر جاتا۔ ہماری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسا گھن چکر ہے کہ سابقہ حکمرانوں نے اچھا خاصا بیس پچیس روپے فی یونٹ والی اعلیٰ نسل کی بجلی کیلئے مختلف کمپنیوں سے معاہدے کیے ہوئے تھے۔ لوگ اُن کیلئے سڑکوں پہ آ آ کے تالیاں بھی بجاتے تھے۔ اس کے پیٹ میں جانے کیا مروڑ اٹھا کہ ایک طرف کمپنیوں کو دابے مار کے ٹیرف کم کرایا، جیسے رقم اس کی ذاتی جیب سے جا رہی تھی اور دوسری طرف دو روپے والی غریب غربا والی پن بجلی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے اور تالیوں کی بجائے گالیاں کھا رہا ہے۔ ستم ظریفی کی حد تو یہ ہے کہ ان جملہ حماقتوں کے باوجود ملکی و بین الاقوامی حالات اس کے حق میں ہموار ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی ہزیمت کا سارا کریڈٹ سیدھا اس کے کھاتے میں لکھا جا چکا ۔ بھارت کی چیخیں، اپوزیشن اورمقامی لبرلز کی حواس باختگی نیز قومی معیشت کے اشاریے ،شاہین عباس کے اس شعر کی تصویر دکھا رہے ہیں : کہاں لے جانے کو تھی پاؤں کی زنجیر مجھے کہاں لے آیا مگر پاؤں کی زنجیر کو مَیں