سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور (ن) لیگ کی رہنما مریم نواز نے کہا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ سے وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات عمران خان کی ٹوٹتی جماعت کو بچانے کی کوشش ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان این آراو کسی اور کو نہیں خود کو دے رہے ہیں ۔ اس سے پہلے مریم نواز نے کہاکہ ہم عمران خان کی حکومت دو منٹ میں ختم کر سکتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ وہ مدت پوری کریں ۔مریم نواز کی یہ کلا بازی سیاسی تاریخ میں سیاہ حروف سے رقم ہوگی۔(ن) لیگ والے عمران خان کو یوٹرن خان کا نام دیتے تھے مگر اس کلابازی سے ان کو کیا نام دیا جائے؟ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو قوم کا اتنا وقت ہنگاموں کی نذر کیوں کیا گیا ؟اس موقع پر لوگ آصف زرداری کی سیاست کو یاد کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آصف زرداری نے اسمبلیوں سے استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ دیا تو اُن پر تنقید ہوئی اور اس غصے میں سید یوسف رضا گیلانی کو بھی چیئرمین سینیٹ سے الیکشن میں شکست سے دوچار کرایا گیا ، مگر زرداری پر تنقید کرنے والی ن لیگ خود اسی جگہ پر آ گئی ۔ مریم نواز اور عمران خان کے دیگر مخالفین کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ عمران خان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ،البتہ عمران خان کو جب بھی نقصان ہو گا عمران خان سے ہو گا اور عمران خان کی ضد اور ہٹ دھرمی سے ہو گا ۔ مریم نواز کا جب سے یہ بیان آیا ہے تو عمران خان مزید مضبوط ہو گئے ہیں اور اب وہ اس قدر زعم میں آگئے ہیں ، اپنی جماعت کے ارکان اور وزراء کی جائز بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔موجودہ حالات میں تحریک انصاف کی حکومت کو مضبوط بنانے میں محترمہ مریم نواز اور ن لیگ کا اہم کردار ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ترین گروپ سے وزیراعظم کے مذاکرات تحریک انصاف کو شکست وریخت سے بچانے کی کوشش ہے تو اس بات کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں کہ عمران خان ،جہانگیر ترین کے مسئلے پر پہلے اپنی ضد پر قائم تھے اور اب وہ مزید ڈٹ گئے ہیں ۔کہا جاتاہے کہ وزیر اعظم سے جہانگیر ترین گروپ کی ملاقات میں برف نہیں پگھل سکی ، وزیر اعظم عمران خان نے یہ کہہ کر وفد کو واپس بھیج دیا کہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے ۔ کہا جاتا ہے کہ شہزاداکبر کو ہٹانے ، جوڈیشل کمیشن بنانے سے متعلق راجہ ریاض اور دیگر ارکان کی بات نہیںمانی گئی۔ جہانگیر ترین گروپ کاآئندہ لائحہ عمل کیا ہو گا ؟یہ آنے والے وقت بتائے گا ۔جیسا کہ میں نے گذشتہ روز لکھا تھا کہ وزیر اعظم کے ملتان کے جلسے میں مخدوم شاہ محمود نے ترین گروپ کے خلاف اپنی بھڑاس نکالتے ہوئے کہا تھا کہ دو چار ارکان کے ادھر اُدھر آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، مگر مخدوم صیب !بات ایسی نہیں ہے ۔ وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے 33ارکان اسمبلی گئے جن میں کچھ وزیر مشیر بھی شامل تھے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اقتدار میں ہونے کے باوجود مخدوم شاہ محمود قریشی کو اتنے ارکان کی حمایت حاصل نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے والے عمران خان کو باور کرا رہے ہیں کہ بلا تفریق احتساب کے نعرے سے اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے حالانکہ بلا تفریق احتساب کا نعرہ اُس وقت دم توڑ جاتا ہے جب کٹہرے میں کھڑے ہونے والے کچھ وزراء کو لوگ کابینہ میں دیکھتے ہیں ۔یہ بھی اتفاق ہے کہ وزیر اعظم کے قریب سمجھے جانے والے شہزاد اکبر، علی زیدی، زلفی بخاری، اسد عمر ،اور علی امین گنڈا پور جہانگیر ترین کے خلاف ہیں۔تنازعے کی دیگر بہت سی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جہانگیر ترین دوسروں کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار اور زیادہ اثرو رسوخ والے ہیں ۔اصل جھگڑا عمران خان کے ساتھ جہانگیر ترین کی قربت کا ہے جو کہ ان کے مخالفوں کو پسند نہیں۔ جہانگیر ترین کے بارے میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان کے خاندان کو عروج ایوب خان کے زمانے سے ملا ،ایوب خان ترین تھے اور نوازشات کے لیے ان کی پہلی ترجیح ترین اور دوسری پشتون تھی ایوب خان نے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو تلاش کرکے نوازا ، جہانگیر ترین کے والد اللہ نواز خان ترین پولیس میں تھے اور ایوب خان کی اُن کو بھی سرپرستی حاصل ہوئی ۔ 1953ء میں جہانگیر ترین سونے کا نوالہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے، جہانگیر ترین تعلیم کے بعد زراعت پر توجہ دی اور پھر کاروبار کو آگے بڑھایا ، اب ان کا شمار ملک کے بڑے صنتکاروں اور سرمایہ داروں میں ہوتا ہے ۔وہ سمجھدار اور محنتی شخص ہیں اُن کی یہ بھی خوبی ہے کہ لودھراں پائلٹ پراجیکٹ کے تحت انہوں نے بہت سے رفاحی کام کئے اور تعلیم کے فروغ کے لیے ادارے بنائے انہوں نے ایک اچھا کام یہ بھی کیا کہ اپنے اداروں میں بچوں کو اُردو انگلش کے ساتھ سرائیکی پڑھانے کا بھی اہتمام کیا۔انہوں نے اپنا ایک سرائیکی ٹی وی چینل روہی کے نام سے قائم کیا مگرچینل کی باگ دوڑ ان لوگوں کے ہاتھ میں دی جو سرائیکی سے واقف نہ تھے۔ایک بات یہ بھی ہوئی کہ جہانگیر ترین کی زیادہ توجہ عمران خان کو برسراقتدار لانے کی طرف ہو گئی اور سرائیکی چینل بند ہو گیا ۔ سرائیکی چینل کی بندش سے نہ صرف یہ کہ سرائیکی کی آواز بند ہوئی بلکہ نچلی سطح پر کام کرنے والے وسیب کے ملازمین آج بے روزگار ہو کر دھکے کھا رہے ہیں ۔اور جہانگیر ترین کو وہ دعائیں نہیں دیتے۔ وسیب کے لوگوں کی آج بھی اس بات پر ناراضگی ہے کہ جہانگیر ترین کی تحریک انصاف میں آج بھی گروپ بندی خود کوانتقامی کاروائیوں سے بچانے اور اقتدار کا قرب حاصل کرنے کے لیے ہے ۔وہ چاہے نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے کہ جہانگیرترین اپنے وسیب کے مخلص ہوتے یا پھر ان میں قائدانہ صلاحیتیں ہوتیں تو وہ یہ کہہ کر عمران خان سے اختلا ف کرتے کہ ہم نے صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کراتے وقت 100دن میں صوبہ بنانے کا تحریری وعدہ کیا تھا جب تک عمران خان یہ وعدہ پورا نہیں کرتے ہمارا گروپ اُن سے اختلاف کرتا رہے گا ۔