ستمبرمیں ہم اپنے قومی ہیروز کو یاد کرتے ہیں، سوال یہ ہے ہم اپنے مسیحی ہیروز کو کیوں بھول گئے؟ یہ بھی ہمارا ہی بازوئے شمشیر زن تھے اور ان پر بھی ہمیں اتنا ہی فخر ہونا چاہیے جتنا دوسروں پر۔ یہ بھی پاکستان کے اتنے ہی بیٹے تھے جتنا کوئی اور۔ یہ سوال چار سال پہلے 2019 میں میرے دامن سے لپٹا تھا اور میں نے روزنامہ 92 نیوز میں ان ہی سطور میں اٹھایا تھا، یہ سوال آج بھی میرے وجود کا حصہ ہے اور میں یاد دہانیکے طور پر اسے یک بار پھر شعور اجتماعی کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ حالات حاضرہ کے نام پر اگر ہم روز پہیہ ایجاد کر سکتے ہیں تو اتنے اہم سوال کی تکرار میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا آپ لانس نائیک یعقوب مسیح کو جانتے ہیں؟ پانڈو کے محاذ پر ہونے والی لڑائی کا تذکرہ تو ہم نے سن رکھا ہے، کل پترا کی پہاڑی فتح کرتے ہوئے کیپٹن سرور شہید ہوئے تھے اور انہیں پاکستان کا پہلا نشانِ حیدر ملا تھا۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے اس پہاڑی پر پاکستان کا پرچم لہرانے کا اعزاز کسے حاصل ہوا تھا؟ لانس نائیک یعقوب مسیح کو۔ گولیوں سے ان کا وجود چھلنی ہو چکا تھا لیکن انہوں نے گھائل وجود کے ساتھ پانڈو ٹاپ پر سبز ہلالی پرچم لہرایا او رپھر اس پرچم کے سائے میں جان قربان کر دی۔ کیا آپ نے کبھی کہیں ان کا ذکر پڑھا اور سنا؟ کیا آپ پیٹر کرسٹی نام کے قومی ہیرو سے واقف ہیں؟َ سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی 65ء کی جنگ میں شریک رہے۔ جب 71 ء کی جنگ شروع ہوئی تو پیٹر کرسٹی ڈیپوٹیشن پر پی آئی اے میں کام کر رہے تھے۔ دفاع وطن کی خاطر یہ سب کچھ چھوڑ کر واپس آ گئے۔ کراچی پر دشمن کے حملے کا خطرہ تھا۔ اسے روکنا ضروری تھا۔ بیس کمانڈر نے کہا دشمن کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جام نگر ایئر پورٹ کو تباہ کر دیا جائے لیکن یہ مارو اور مر جائو مشن ہو گا اور واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کون جائے گا؟ پیٹر کرسٹی نے کہا اس دن کا تو انتظار تھا، میں جائوں گا۔ اسی مشن کے دوران پیٹر کرسٹی وطن پر قربان ہو گئے۔ جسد خاکی بھی نہ مل سکا۔ سچ بتائیے کیا آپ نے کبھی اپنے نصاب میں پیٹر کرسٹی کا نام پڑھا؟ ہمارے ایک قومی ہیرو کا نام ونگ کمانڈر مارون لیزلے مڈل کوٹ ہے، کیا آپ انہیں جانتے ہیں؟ 65 کی جنگ میں فلائٹ لیفٹیننٹ کے طور پر کراچی میں تعینات تھے۔ دشمن نے کراچی پر حملہ کیا تو انہوں نے بھارت کے دو جہاز مار گرائے۔ انہیں شہریوں کی جانب سے ’کراچی کے محافظ‘ کا خطابدیا گیا۔انہیں دو مرتبہ ستارہ جرات عطا کیا گیا۔ یہاں بھی جام نگر کے ایئر پورٹ پر حملہ کرنا تھا اور جس نے جانا تھا یہ سوچ کر جانا تھا کہ مشن سے واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ اس دفعہ کمانڈر مارون لیزلے مڈل کوٹ نے مادر وطن کے لیے لبیک کہا اور خود کو والنٹئر کیا حالانکہ وہ ایک ہی دن پہلے اردن سے لوٹے تھے۔ کامیاب حملے کے بعد واپسی پر بھارت کے مگ طیاروں نے ان پر حملہ کر دیا، ان پر میزائل فائر ہوئے۔ ایک میزائل جہاز کو آ لگا۔ پاکستان کا ایک اور بیٹا پاکستان پر قربان ہو گیا۔ کمانڈر مڈل کوٹ نے اسرائیل کے خلاف عربوں کی جنگ میں بھی حصہ لیا اور اردن کے شاہ حسین ان کے بہت معترف تھے۔ شاہ حسین نے باقاعدہ درخواست کی تھی کہ کمانڈر مڈل کوٹ کے جسد خاکی کو تو آپ پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کریں گے لیکن ہماری درخواست ہے کمانڈر کے سر کے نیچے اردن کا قومی پرچم بھی رکھ دیجیے۔ یہ ایک عظیم کمانڈر کو ہمارا خراج عقیدت ہو گا۔ لیکن شاہ حسین کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی کی طرح کمانڈر مارون لیزلے کا جسد خاکی بھی نہ مل سکا۔ تو کیا آپ سیکنڈ لیفٹیننٹ دانیال کو جانتے ہیں؟ مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو دانیال نے خود کو ’والنٹیئر‘ کیا اور مشرقی پاکستان پہنچ گئے۔ 13 دسمبر کی صبح ایک مشن سے واپس لوٹ کر ناشتہ کر رہے تھے کہ خبر ملی 31 پنجاب کی پلٹون پر حملہ ہو گیا ہے۔ ناشتہ بیچ میں چھوڑ کر دشمن کے گھیرے میں آئے ساتھیوں کو بچانے نکلے اور سینہ چھلنی ہو گیا۔ ہسپتال پہنچے، آپریشن ہوا، سینے سے گولیاں نکالی گئیں، دانیال نے ڈاکٹر سے کہا یہ گولیاں نہیں یہ سووینئر ہے، یہ میری ماں کو پہنچا دینا اور خود مادر وطن پر قربان ہو گئے۔ کیا آپ کیپٹن میخائل ولسن کے نام سے واقف ہیں؟ 1971 میں چھمب سیکٹر میں تعینات تھے۔ زخمی ہوئے اور جان قربان کر دی۔ روایت ہے کہ مادر وطن پر قربان ہوتے وقت بھی وہ اپنے لیے نہیں اپنے وطن کی سلامتی کے لیے پریشان تھے۔ ایئر کموڈور نذیر لطیف بھی مسیحی تھے۔ (انہیں 65 کی جنگ میں تمغہ جرات عطا کیا گیا اور 71 کی جنگ میں انہیں ستاہ جرات سے نوازا گیا)۔ ہم تو شاید نہ جانتے ہوں لیکن جاننے والے خوب جانتے ہیں کیسا جری بیٹا تھا۔ وطن پر قربان ہونے والے ان ہیروز کے ساتھ ساتھ کچھ اور نام بھی ہیں جن کی پاکستان کے لیے ناقابل فراموش خدمات ہیں۔ سیسل چودھری ہیں جنہیں ستارہ جرات، تمغہ جرات اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا، میجر جنرل ایرک جی ہال جو وائس چیف آف ایئر سٹاف رہے۔ 65 کی جنگ میں ایک موقع وہ بھی آیا جب پاکستان کے پاس جنگی طیارے کم پڑ گئے۔ جنرل ایرک نے ایک ایسا منصوبہ پیش کیا کہ سب حیران رہ گئے۔ انہوں نے کہا ہم سی ون تھرٹی کو بمبار طیارے کے طور پر استعمال کریں گے۔ منصوبہ ناقابل عمل تھا کیونکہ سی ون تھرٹی لڑاکا طیارہ نہیں تھا۔ ایرک جی ہال نے منصوبے کو اس شان سے قابل عمل بنایا کہ خود سی ون تھرٹی اڑایا اور جا کر بم پھینک آئے۔ انہیں ہلال جرات، ستارہ جرات اور ہلال امتیاز عطا کیا گیا۔ قیام پاکستان کے ایک سال بعد پینتالیس کے قریب پولینڈ کے افسران پاکستانی ایئر فورس کی تربیت کے لیے منگوائے گئے۔ ان میں سے ایک ونگ کمانڈر ولا دیسلاو جوزف تورووچ یہیں رک گئے اور پاکستان کے شہری بن گئے۔ ان کی گراں قدر خدمات کے لیے الگ کالم چاہیے۔ انہیں ستارہ پاکستان، تمغہ پاکستان، ستارہ خدمت، ستارہ قائد اعظم، ستارہ امتیاز، عبد السلام ایوارڈ ان ایرو ناٹیکل انجینئرنگ اور سپیس فزکس میں آئی ٹی سی پی ایوارڈ عطا کیا گیا۔ یہ ہمارے وہ مسیحی ہیرو تھے جنہیں ہم نے فراموش کر دیا۔ کیا ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس دھرتی کے دفاع کے لیے میدان میں اترنے والے ا ور جاں سے گزرنے والے، سب اس دھرتی کے بیٹے تھے، یہ سب ہمارے ہیرو تھے۔ آج چار سال بعد ایک بار پھر یہی سوال میرے دامن سے لپٹا ہے کہ ہم سے ایسی غفلت کیوں ہوئی؟ کیا ہم کبھی اس کا ازالہ کر پائیں گے؟