انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن اپنے مقام سے گرنے پر آئے، تو اس کی پستی کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ہمارے سیاستدان ماشاء اللہ پڑھے لکھے ہیں۔ اسلام کا علم بھی رکھتے ہیں‘ قرآن بھی پڑھتے ہیں اور اخلاقی اقدار سے بھی بخوبی واقف ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کا یہ سارا علم و فضل صرف تھیوری کی حد تک ہے۔ عملی طور پر ان اصول و ضوابط کا اطلاق وہ صرف اپنے مخالفین پر کرتے ہیں۔ اپنے لئے نہ اصول و ضوابط ہیں نہ قاعدہ و قانون۔ پی ڈی ایم نے جو بھی جائز اور ناجائز دائو پیچ کھیلے‘ یوسف رضا گیلانی کو جتوا کر دم لیا۔ انہیں نہ تو زائد ووٹ دلوانے والے ہاتھ نظر آئے اور نہ یوسف رضا گیلانی کا ماضی یاد رہا۔ خود یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنے ماضی کو بھلا کر یہ دعویٰ کیا کہ ووٹرز ان کے ماضی کے کردار کو مدنظر رکھ کر انہیں ووٹ دیں گے۔ یہ الگ بات کہ سوشل میڈیا میں ان کے ماضی کے کردار پر جو روشنی ڈالی گئی اس پر غور کرنا پی ڈی ایم نے مناسب نہ سمجھا۔ آج جب ایک اور معرکہ برپا ہونے کو ہے تو پی ڈی ایم نے یہ نعرہ بلند کیا ہے کہ اگر ہماری جیت کو شکست میں بدلا گیا،تو ہم اس میں ملوث ہاتھ بے نقاب کریں گے۔ مستقبل کا صیغہ کا تو انہوں نے ازراہ تکلف استعمال کیا ہے ورنہ کل کی پریس کانفرنس میں وہ پہلے ہی دفاعی اداروں پر یہ الزام لگا چکے ہیں۔ سینیٹر حافظ عبدالکریم نے مریم اورنگزیب اور شاہد خاقان عباسی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ حافظ عبدالکریم کو ٹیلی فون پر گمنام شخص نے پی ڈی ایم کو ووٹ دینے سے منع کیا۔ یہ فون غالباً 5یا 6مارچ کو کیا گیا لیکن مولانا نے مناسب سمجھا کہ اس کا انکشاف 11مارچ کو کیا جائے تاکہ زیادہ سنسنی پیدا ہو اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اس کا فوری فائدہ تو یہ ہوا کہ 2016ء کے مقدمے میں ان کی ضمانت کروانے کے لئے سردار لطیف کھوسہ جیسے بڑے وکیل مفت پیش ہوئے اور ان کی ضمانت کروا دی۔ کیا اس سے پہلے سوچا جا سکتا تھا کہ پیپلز پارٹی کا لیڈر جے یو آئی کے کسی شخص کے لئے اتنا تردر کرے گا۔ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ حافظ عبدالکریم کے چوری چکاری کے مقدمے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا اور اب وہ سر اٹھا کر اپنے مقدمے کا دفاع کر سکیں گے۔ تیسرا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی خوشنودی حاصل ہوئی،جن کا مقصد حیات ہی یہ بن چکا ہے کہ وہ اپنی ہی فوج کے خلاف الزامات لگائیں اور اپنی شکست کی صورت میں سارا ملبہ دفاعی اداروں پر ڈال دیں۔ وہ مکمل طور پر بھول چکے ہیں کہ ان کا سیاست میں داخلہ انہی اداروں کا مرہون منت ہے۔ مولانا کو تو باوردی صدر بھی قبول تھا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت عددی اعتبار سے حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں معمولی فرق ہے اور دونوں اتحاد اس پوزیشن میں نہیں ہیں، اپنے ووٹوں سے 51کا ہندسہ عبور کر سکیں۔اپوزیشن کا ایک ووٹ ڈار صاحب کے مفرور ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گا۔ انہیں واپس بلانا خالی ازخطرہ نہیں کہ وہ ایک تو نوازشریف کے قریبی عزیز ہیں اور دوسرا حسب سابق وعدہ معاف گواہ بننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ حکومتی اتحاد کے پاس 47ووٹ ہیں اور اپوزیشن کے پاس 49ووٹ ہیں۔ جماعت اسلامی کا ایک ووٹ اور بی این پی اور اے این پی کا ایک ایک ووٹ فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔ آزاد ارکان کا ووٹ بھی فیصلہ کن ہو سکتا ہے جس کے لئے دونوں اتحاد پورا زور لگائیں گے۔ فیصلہ کسی کے حق میں بھی آ سکتا ہے لیکن اپوزیشن اتحاد نے کل کی پریس کانفرنس کی صورت میں اداروں پر الزام لگانے کے لئے زمین ہموار کر لی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنی شکست کا کافی احتمال ہے۔ اگرچہ حکومت کی اپنی طاقت بھی ہوتی ہے اور وہ سرکاری ملازمین کو نوازنے اور سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے لیکن جو طرز حکمرانی پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنایا ہے‘نہ تو سرکاری ملازمین اس کی سنتے ہیں اور نہ میڈیا ان کا موقف دینے کے لئے تیار ہے۔ ڈسکہ کے انتخاب کے بعد جو حشر سرکاری ملازمین کا ہوا‘ اس کے بعد تو سرکاری ملازمین کسی صورت ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اگر وزیر اطلاعات یہ کہیں گے کہ وہ جیتنے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں گے اور مثال دے کر واضح کریں گے کہ اگر اپوزیشن فٹ بال میں ہاتھ کا استعمال کرے گی تو ہم اپنے ہاتھ کو قانون کی رسی سے نہیں باندھ سکتے۔اس کا مطلب تو بڑا واضح ہے‘ آزاد صحافی اس کا کوئی اور مطلب کیسے نکال سکتے ہیں۔ یہ بیان دینے کے بعد آپ جو بھی تاویل دیں، وہ قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ تبھی تو شبلی فراز کو سننا پڑا کہ دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے ایک سینئر اینکر کا کلپ سوشل میڈیا پر وائر ہے ،ویسے تو وہ عام طور پر حکومت کے مثبت اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انہیں اجاگر کرتے ہیں۔اس کلپ میں انھوں نے پنجاب‘خیبر پختونخواہ اور کراچی میں پی ٹی آئی کے طرز حکمرانی کے خوب لتے لئے ہیں اور انہیں وارننگ دی ہے کہ اگر انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نئی اور توانا ٹیم اکھاڑے میں نہ اتاری تو اگلے الیکشن میں شکست ان کا مقدر ہو گی۔ انہوں نے عمران خان کی توجہ کراچی کی ناگفتہ بہ صورت حال اور لاہور میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کی طرف دلائی ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ حکومت کے ہمدرد اور بہی خواہ سمجھے جاتے ہیں۔ شاید وزیر اعظم ان کی آواز پر کان دھریں۔ لیکن عمران خان کا جواب آج کے اخباروں کی زینت ہے۔ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے عثمان بزدار کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ظاہر ہے کور کمیٹی کا ہاتھ عوام کی نبض پر تو بالکل بھی نہیں ہے لیکن کور کمیٹی عمران خان کی نبض خوب پہچانتی ہے۔ بالکل وہی بولتی ہے جو عمران خان سننا چاہتے ہیں۔ بہرحال عمران خان کا اصل چیلنج سینٹ کے چیئرمین کا الیکشن نہیں بلکہ بہترین ٹیم کا انتخاب اور اچھی گورننس ہے۔ وہ الیکشن جیتیں یا ہاریں۔ ایک اور دریا ان کا منتظر ہے۔’’ضد‘‘ کوئی طرز حکمرانی نہیں ہے۔انہیں پرانی اور بوسیدہ ٹیم اور عوامی پذیرائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔