ہر روز زندگی مہنگی ہو رہی ہے، اتنی مہنگی کہ اسے خریدنے کی سکت نہیں رہی۔پہلے بجلی ایک ہی دن ساڑھے سات روپے فی یونٹ مہنگی ہوئی پھر ایک ایک کر کے ہر چیز کے نرخ آسمان کو طھونے لگے ۔ایوب خان اور بھٹو صاحب نے ظلم کیا کہ سادہ زندگی گزارنے والوں کو بجلی اور گیس فراہم کر دی۔تین نسلیں جب زندگی کو بدلنے والی ان سہولتوں کی عادی ہو گئیں تو لوڈ شیڈنگ آ گئی۔لوگ مر کر گزارا کر رہے تھے، اب قیمتیں اس قدر بڑھا دی ہیں کہ مر کے بھی چین نہیں مل رہا۔ پچھلے دس روز میں بجلی کی قیمت دو بار بڑھی ہے،احباب اپنے بل سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں ۔آج اخبار کھولا تو کنپٹی پر گیس کی قیمت پچاس فیصد بڑھنے کی خبر پڑی۔ہوش گم ہے۔کیا لکھیں ، کس کو لکھیں۔فیصلہ ساز بے حس ہو گئے۔رانا زوہیر کہہ رہے تھے حکمران اشرافیہ طے کر بیٹھی ہے کہ لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لئے سب سے موثر طریقہ انہیں روٹی ،بجلی، گیس،پانی، سیوریج کے مسائل میں الجھائے رکھنا ہے۔ لوگ گرہیں کھولتے کھولتے بوڑھے ہو جاتے ہیں،قسمت نہیں بدلتی ،ہاتھوں پر چنڈیاں بڑھ جاتی ہیں۔بال سفید اور کمر جھک جاتی ہے،آنکھوں میں جلتی امید کی مشعلیں بجھ جاتی ہیں لیکن مسلط چہروں پر سرخی برقرار رہتی ہے۔ بلا شبہ ڈیڑھ سال پہلے معیشت کی حالت بہت اچھی نہ تھی لیکن معاشی اشاریے بتاتے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر 17ارب ڈالر تھے۔ مہنگائی کی شرح 16فیصد تھی۔سٹاک مارکیٹ پر سرمایہ کاروں کا بھروسہ موجود تھا۔ملکی درآمدات اور برآمدات کے درمیان ایک مفید توازن تھا۔ایندھن کے کم نرخوں کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر ریکارڈ منافع کما رہا تھا۔کورونا کے باوجود روزگار مل رہا تھا ۔تارکین وطن سالانہ 31ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات بھیج رہے تھے۔اپریل 2022ء میں جب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاری کی جا رہی تھی اس وقت فی گھریلو یونٹ بجلی کی قیمت تقریباً 15روپے تھی جبکہ کمرشل یونٹ کا نرخ 45روپے 80پیسے تھا۔پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس میں شریک جماعتوں نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جلوس نکالے۔ان جلوسوں میں نہ تو پی ٹی آئی سربراہ کے کسی جرم کا ذکر تھا اور نہ حکومت کی کرپشن کی دلیل تھی۔اس وقت کہا گیا کہ پی ٹی آئی حکومت مہنگائی کو قابو کرنے میں ناکام رہی ہے۔لوگوں کو باور کرایا گیا کہ وہ پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت بدلنے کی تحریک کی حمایت کریں۔اقتدار میں آ کر مہنگائی کم کرنے کے وعدے کئے گئے۔قوم کے بڑے حصے نے نہ سہی چند لوگوں نے ان وعدوں پر ضرور اعتبار کیا۔آج ڈیڑھ سال بعد معیشت کے اشاریے بدترین شکل پیش کر رہے ہیں۔مہنگائی 48فیصد ہو چکی ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر 7ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ٹیکسٹائل کی صنعت زرمبادلہ کمانے کی بجائے خسارے اور بندش کی گرفت میں ہے۔70لاکھ مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں۔گھریلوبجلی کی فی یونٹ قیمت 40روپے کے لگے بھگ ہونے کو ہے۔ کمرشل یونٹ 60روپے سے زیادہ کا ہو رہا ہے۔اس ڈیڑھ سال کے دوران معیشت ٹھیک تو نہ ہو سکی پہلے سے زیادہ برے حال کو ضرور جا پہنچی ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے معیشت درست راستے پر آ گئی۔وزیر بتا رہے ہیںکہ اب ملک ترقی کرے گا لیکن اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے ادارے ڈوب رہے ہیں ، ایک وزیر نے قومی اسمبلی میں یہ سچ بول دیا ہے۔سننے والوں کی آنکھوں میں پشیمانی نہیں تھی،ایک تمسخر تھا۔ حکومت اور افسر شاہی جو کہہ رہی ہے اگرچہ جھوٹ ہے لیکن تسلیم کرنے میں عافیت ہے۔ ہمیں تسلیم کہ مسلم لیگ نواز‘ پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے اپنی سیاست کو خطرے میں ڈال کر ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ اتحادی جماعتوں نے پی ٹی آئی دور میں مہنگائی کے ہاتھوں خودکشی کرنے والے عوام کو اشیائے خورو نوش سستے داموں فراہم کیں۔ دودھ‘ دہی‘ دال‘ گھی‘ چینی اور آٹا کے نرخ کم ہوئے۔ ہم ماننے کو تیار ہیں کہ پولیس عوام دوست بن چکی ہے۔ آئی جی ہر ماہ ظل شاہ کے گھر جاتے ہیں‘ اس کی بوڑھی ماں سے پیار لیتے ہیں۔ ہم تو وزیر اطلاعات‘ وزیر داخلہ اور زیر تربیت وزیر داخلہ کی باتوں پر بھی یقین کرنے لگے ہیں لیکن کچھ لوگ جو لکھ پڑھ نہیں سکتے‘ جنہیں ہماری طرح زندگی کی آسائشوں سے محبت نہیں،جو سانسوں کے عوض جبر برداشت کرنے کو آمادہ نہیں،جو سمجھتے ہیں کہ حکومتوں نے عام آدمی کو لوٹا ہے،حکومت کشکول باہر اٹھا کر پھینک رہی ہے وہ یہ بھی ماننے کو تیار نہیں۔ پانچ روز قبل تھرپارکر کے تیس سالہ نوجوان میگہواڑ نے چار سالہ بیٹی سمیت کنویں میں کود کر خودکشی کرلی۔ وہ بھوک سے پریشان تھا۔ کسی نے اسے بتایا ہی نہیں کہ حکومت نے ڈیڑھ سال کے عرصے میں اس کی بھوک مٹانے کے لیے کیا شاندار منصوبے تربیت دیئے ہیں۔چند برس پہلے اس کی بیوی غربت اور بھوک کے ہاتھوں مر گئی تھی۔ 23 جنوری 2023ء کو جاتی عمرہ کے قریب واقع قصبے رائے ونڈ میں مہنگائی سے تنگ کرامت نے اپنی تین بچیوں کو زہریلی گولیاں کھلا کر خودکشی کی کوشش کی۔ ان ہی دنوں میں رحیم یارخان میں مہنگائی سے تنگ آ کر باپ بیٹی سمیت نہر میں کود گیا۔ کراچی میں فیڈرل بی ایریا میں چھ بچوں کے باپ نے بیروزگاری اور معاشی تنگدستی پر فہیم نے گلے میں پھندا لے لیا۔ چنیوٹ میں ایک شخص نے پانچ بچوں کو قتل کر کے خودکشی کرلی۔ بیٹیوں سمیت خودکشی کرنے والے بتا رہے ہیں کہ نظام اور نظام کے پرزے ان کی جان اور آبرو کی حفاظت نہیں کر پا رہے۔ یہ مرنے والے اس بات پر یقین نہیں کر رہے کہ کوئی واپس آ کر ان کی زندگی آسان کردے گا۔ انہیں یہ یقین بھی نہیں کہ وہ جسے ووٹ دیں گے وہ جیت سکے گا یا اسے ہرا دیا جائے گا۔