ولیمہ کیا تھا؟ علم و ادب اور ثقافت و سیاست کا عجیب و امیر آمیزہ تھا۔ موسم شدید سرد اور برشیلا تھا، جسے گرمانے، بھرمانے کے لیے دھوپ کے رُوپ کا سُوپ، بھاپ اگلتے کھانوں، گرما گرم بحثوں اور گداز جسموں کا وافر سامان موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کھانے کے بعد بھی لوگوں کے چہروں یا لہجوں پہ اکتاہٹ، عجلت یا ’لَوٹ کے گھر جانا ہے‘ جیسی خواہش کے آثار دکھائی نہ دیتے تھے بلکہ گفتگو میں موسم کو مات دینے کا عندیہ نمایاں تھا، بقول گمبھیر نیازی: کُجھ موسم وی برشیلا سی کُجھ سانوں ٹھرن دا شوق وی سی آپس کی بات ہے کہ یہ شادی کم اور ادبی، سیاسی، فلمی، میڈیائی فروٹ چاٹ زیادہ تھی۔ کھانے کے تعاقب میں جاتی خواتین کی چال میں بھی بھوک کی ہُوک کی بجائے کیٹ واک کا بے باک عنصر نمایاں تھا۔ سلامی سے بے نیاز بیٹھے شاعروں ادیبوں کو سلاد کی قاشیںبھی غزل کے شعر، لیلیٰ کی انگلیاں، مجنوں کی پسلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ صحافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے چہروں پہ رونق کی رمق ذرا کم کم تھی۔ صحافیوں کی بھی یہاں کئی اقسام تھیں۔ خال خال ایسے تھے جو ابھی تک اس کوچے میں صراطِ مستقیم اور رزقِ حلال جیسے ’فرسودہ‘ تصور سے جڑے ہو ئے تھے یا مرزا مُفتہ کے بقول انھیں ’ایمان داری کا ہیضہ‘ ہوا ہوا تھا۔ ان کی حقیقت حال، اُن کے کپڑوں کی سادگی، گفتگو کی درماندگی اور سواری کی درماندگی سے عیاں تھی لیکن یہاں زیادہ تر وہ ہستیاں تھیں جو اِس کوچے میں نام پانے کے بعد سرکاری عہدوں کی برسات سے بھی کم یا زیادہ مستفید ہو چکے تھے۔ چند ہستیاں تو ایسی بھی تھیں کہ کبھی جن کے حرف حرف، لفظ لفظ پہ پیار آتا تھا۔ سیاست کے بیان میں بھی ادب، تاریخ، لطافت اور غیر جانب داری کا ایسا تڑکا ہوتا کہ سواد آ جاتا۔ لوگ ان کے کالم کا انتظار کرتے۔ہم لوگوں کو ان کے جملے سناتے، ان کے تجزیے ادبی اور نجی محفلوں میں زیرِ بحث آتے۔ پھر انھوں نے سرکاری عہدوں اور بھاری معاوضوں کا طوق گلے میں ڈال لیا۔ ان کے گھر، گاڑی اور اکاؤنٹوں میں تو برکت آ گئی لیکن لفظ کی حرمت چھن گئی۔ہم نے کسی زمانے میں لکھا تھا کہ ’قلم کا سر جھکا ہوا ہو تو حرف بنتا ہے، اور قلم کار کا سر جھکا ہو تو حرف آتا ہے۔‘ کچھ عرصے بعد اپنے انھی پسندیدوں کے کالم خوشامد کے شیرے میں چپچپاتے، وضاحتوں کے روغن میں ترتراتے، قارئین کو اپنے سیاسی مربی کے مؤقف پہ قائل کے اصرار سے ہکلاتے، نمک ہلالی کے بوجھ تلے چرچراتے ہوئے ملنے لگے۔ لفظ لفظ کی دُم ہلتی ہوئی، قلم کی رال ٹپکتی ہوئی، حرف مربیوں کے پاؤں پڑتے ہوئے، اسلوب سے ’ بھاگ لگے رہن، ویل ویل گانے سہرے آلے دی ویل‘ کی چیخیں سنائی دیتی ہوئی۔ یہ دُم بظاہر تو دو حرفی منحنی سا لفظ ہے، کسی جانور یا پرندے کا پشتینی عضو اور حسن ہے۔ مکھیاں اڑانے، وفا داری دکھانے کے کام آتی ہے۔ دُم دار ستارہ بھی کبھی کبھی خوبصورت لگتا تھا لیکن جب یہی دُم انسان نما جانور کے اُگ آتی ہے تو کرداروں، معیاروں کے فیصلے کرنے لگتی ہے۔ بھیک اور بھوک کے ہڑک میں وقار بھَک سے اُڑ جاتا ہے۔ آپ تحقیق کر کے دیکھ لیجیے بے دماغ سیاست دانوں کی اوچھی چالوں، خواہ مخواہ کے ٹیکسوں اور کٹھ پُتلی وزیروں مشیروں کے کٹ کھنے بیانات اور حیا سوز اقدامات کے پیچھے یہی ’معروف صحافی‘ نظر آئیں گے۔ ولیمہ ابھی عروج پہ تھا کہ ہمیں اچانک اس بھیگے موسم میں گھر جانا یاد آ گیا۔ صاحبِ تقریب سے سلام اور سلامی کی رسم ادا کر کے واپسی کا پہلا قدم اٹھایا ہی تھا کہ میزبان کے پیچھے قطار اندر قطار برہنہ بازوؤں، لچکیلی نیم برہنہ کمروں، کھسکتے گریبانوں، اُجلے چہروں سے ہونے والی چکاچوند میں سے کسی نے میرا نام پکارا۔ مَیں ابھی پوری طرح ٹھٹھکا بھی نہ تھا کہ ایک سرسراتی ہوئی ریشمی ساڑھی اپنی طرف بڑھتی دکھائی دینے لگی۔ بال، بازو اور پیٹ کھلے، پلک جماؤ لپ سٹک، گریبان کا کٹ نشیبی، حوصلے فرازی … اچھی طرح آنکھیں مَل کے دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ تو اپنے ایک قریبی قصبے سے شاعری کے شوق میں شہر آئی وہی سادہ مگر خوبصورت سی لڑکی تھی ، جسے آکاش چھونے کی آرزو تھی۔ کچھ عرصہ قبل جس کی دوبئی سے متعلق بھی مشکوک سی خبریں ملی تھیں۔ ایک زمانے میں اس کا میرے گھر آنا جاناتھا، بے تکلفی اور اعتماد کا تعلق تھا، اس لیے مَیں نے مختصراً شاعرہ سے شرارہ بننے کی بابت دریافت کیا تو بولی: اللہ نے مجھے ظاہری، باطنی حسن سے نوازا تھا، مَیں نے اپنے باطن کو نمایاں کرنے کے لیے شعر و ادب کا سہارا لیا لیکن لوگوں نے ہمیشہ میرے سراپے کو سراہا۔ جتنے عزیز واقارب یا معروف شعرا ادبا کے قریب ہونے کا موقع ملا، انھوں نے جسم ہی کی طلب کی۔ بالآخر مَیں نے سوچا کہ اگر خود کو چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے آگے بیچنا ہی ہے تو معقول قیمت کیوں نہ وصول کی جائے۔ کچھ عرصہ مَیں ایلیٹ کلاس محفلوں میں ناچتی رہی، پھر وہ میرے اشاروں پہ ناچنے لگے۔ پھر ایک امیر بزرگ کے ساتھ شادی کے بارے میں بتایا کہ کس طرح موصوف ایک تقریب میںمیرا حسن اور لباس دیکھ کے لٹو ہو گئے۔ اصرار کر کر کے فون نمبر لیا، چَیٹنگ بہت جلد طویل کالوں میں تبدیل ہو گئی۔ روز نئی نئی اور بولڈ تصاویر کے لیے ضد کی جاتی، ویڈیو کالز کی للک بھی سنبھالے نہ سنبھلتی تھی۔ غرض یہ کہ رفتہ رفتہ عریاں گفتگو کے بغیر نیند نے آنے سے صاف انکار کر دیا۔ مَیں نے کسی مصنف کا قول کہیں پڑھا تھا کہ اپنے باس سے فحش گفتگو کرنا تو منھ زبانی ویاگرا کھلانے جیسا عمل ہے۔ یہاں بھی وہی صورت بنتی جا رہی تھی: پہلے آپ، پھر تم ہوئے، اب تُو کا عنواں ہو گئے اس کے بعد ملاقاتوں پہ اصرار ہونے لگا، پہلے گانے کی فرمائش ہوتی تھی، اب رقص کا مطالبہ سر اٹھانے لگا۔ ان کے بقول رقص میں امراؤ جان اور مادھوری تو میرے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہ تھیں۔ جب چائے کھانے، باتوں گھاتوں اور رقص و سرود کی ملاقاتوں سے بھی جی نہ بھرا تو شادی کی رَٹ لگا لی۔ مجھے موصوف کی پہلی شادیوں کا علم تھا،اس لیے ہر بار بات کو کوئی خوبصورت موڑ دے کر، کوئی رومینٹک سی نظم سنا کر ٹال دیتی ۔ یہاں اپنی خیالی طور پر کی گئی شاعری نے عملی ڈھال کا کام کیا لیکن شاعری نے تو جلتی پہ تیل کا کام کیا۔ ایک دن تو موصوف نے ایسی دل فریب آفر کی کہ مجھے ہار مانتے ہی بنی۔ آخر ہر انسان کی ایک مالی یا جذباتی قیمت ہوتی ہے، مَیں پگھل گئی۔ اس آفر کا انداز کچھ اس قسم کا تھا: سچ بات تو یہ ہے کہ ان دونوں طرح کے کرداروں میںبکاؤ طوائفوںکی جھلک نمایاں تھی لیکن وہ خاتون بہرحال زیادہ معقول لگی کہ اس نے صرف تن کا دھن وصول کیا تھا، ذہن و قلم رہن رکھ کے ملک بیچنے اور نوچنے کے عمل میں شریک نہیں ہوئی تھی!!!