پاکستان میں مزدوروں کی اکثریت ٹشوپیپر کی طرح ہے جن سے یہ معاشرہ اپنا کام لیکر کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔ رسول ِاکر م حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ ِوسلم کی حدیث ہے کہ محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔یہ تعلیم ہماری اخلاقیات کاحصّہ ہوتی توہم اللہ کے دوستوں سے وہ سلوک نہ کرتے جو اس وقت کیا جارہا ہے۔محنت کشوںکی اکثریت کووہ حقوق بھی حاصل نہیں جوملکی قانون کے تحت انہیں ملنے چاہئیں۔ دوتہائی سے زیادہ مزدوروںکو حکومت کی مقرر کردہ اُجرت سے کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر مزدور ٹھیکہ پر کام کرتے ہیں ‘ اُن سے تحریری معاہدہ نہیں کیا جاتا جس کے باعث نہ تو انہیں سوشل سیکیورٹی کے سرکاری ادارہ سے مراعات ملتی ہیں‘ نہ سرکاری ادارہ (ای او بی آئی) سے بڑھاپے کی پنشن ۔شہروں میں دکانوں‘ ورکشاپس پر قانونی طور پر مقرر کردہ آٹھ گھنٹوں کی بجائے کارکنوں سے دس ‘بارہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے جسکا کوئی اوورٹائم نہیں دیا جاتا۔ لیبر قوانین کی ان کھلی خلاف ورزیوںکو روکنے کے لیے حکومت کوئی کاروائی نہیں کرتی۔تاجر‘ دکاندار حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے‘ مزدوروں کو لیبر قوانین کے تحت انکے جائز حقوق نہیں دیتے‘ انکی اخلاقیات پر آدمی ماتم ہی کرسکتا ہے۔ لیبر امور پر تحقیق کرنے والے بتاتے ہیں کہ ملک میںاسیّ فیصد سے زیادہ کارکنوں کو حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم اجرت نہیں مل رہی حالانکہ یہ سترہ ہزار روپے ماہانہ کی اجرت بھی اتنی کم ہے کہ اس میں ایک خاندان دو وقت کا مناسب کھانا بھی نہیں کھاسکتا۔شہر میں رہنے والے ایک مزدور خاندان کوبہت بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے کم سے کم تیس پینتیس ہزار روپے ماہانہ درکار ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مزدوروں کی عورتیں اور بچے بھی کم تنخواہ پر کام کاج کرنے پر مجبور ہیں۔ ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ کم عمر بچے مزدوری کرتے ہیں جو قانون کے تحت ممنوع ہے۔اسلامی اقدار کا تقاضا تو یہ ہے کہ امیر‘ خوشحال لوگ ان بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کریں لیکن وہ ان سے اپنے گھروں اور ورکشاپوں میں کام کرواتے ہیں۔ریاست نے بھی آنکھیں موندی ہوئی ہیں۔ سوا دو کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے۔ لیبر قوانین کے تحت مزدور کارکنوں کو کام کی جگہ پر مناسب ٹائلٹ‘ سستے کھانے کے کیفے ٹیریا اورکم داموں پر ضروری اشیا کی فراہمی کے لیے فئیر پرائس شاپس مہیا کیا جانا ضروری ہیں۔ اکثر و بیشتر محنت کشوں کو یہ قانونی حقوق نہیں دیے جاتے۔ ہمارے ہاں رواج ہوگیا ہے کہ اکثر کارکنوں کو تحریری ملازمت نامہ دیے بغیر ٹھیکہ پر ملازم رکھا جاتا ہے جنہیں مالک (آجر)جب چاہے نکال دے ۔ ملازمت کے دوران بھی آجر کو ٹھیکہ والے کارکنوں کووہ مراعات نہیں دینا پڑتیںجو لیبر قوانین کے تحت ان کا حق ہیں۔تحقیقات کے مطابق ہمارے ملک میں پچاسی فیصد محنت کش ٹھیکہ پر کام کررہے ہیں۔اگر ایک شخص باقاعدہ ملازم کارکن ہو تو اسے حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم اُجرت دینا پرتی ہے‘ اسے سوشل سیکیورٹی کارڈ ملتا ہے جس کے تحت اسے سوشل سیکیورٹی کے ہسپتالوں میںعلاج معالجہ کی مفت سہولتیں حاصل ہوجاتی ہیں۔ حکومت لیبر کالونی بنائے تو اس محنت کش کو مکان ملنے کا امکان ہوتا ہے۔ اگر کوئی کارکن حادثہ کا شکار ہوجائے تو آجر (ایمپلائر) کو اسے کچھ تلافی کی رقم دینا ہوتی ہے۔ بیمار ہونے کی صورت میں محنت کش کا حق ہے کہ اسے رخصت دی جائے لیکن ٹھیکہ پر کام کرنے والے کو یہ حق نہیں ملتا‘ چھٹی کرنے پر اس کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں میں محنت کش کارکنوں کی تعداد پونے سات کروڑ ہے۔ جبکہ ہمارے رسمی شعبہ(منظم یا بڑے کاروباری ادارے) میں ڈیڑھ کروڑ ملازمین کام کرتے ہیں جن میں سے صرف اسیّ لاکھ کارکنان بڑھاپے کی پنشن کے لیے ای او بی آئی کے ادارے سے رجسٹرڈ ہیں۔ جو غیررسمی شعبے ہیں جیسے چھوٹے کاروباروہاں توای او بی آئی سے رجسٹریشن سرے سے غائب ہے۔ جو عورتیں کارخانوں کا کام اپنے گھروں پر لا کر مزدوری کرتی ہیں یا لوگوں کے گھروں میںکام کاج کرتی ہیں ان کو کسی قسم کے حقوق حاصل ہی نہیں۔ کوئی اللہ کا نیک بندہ خود سے رحم دلی کا مظاہرہ کرے تو اور بات ہے۔ سب سے افسوس ناک حال بلوچستان میں کوئلوں کی کانوں میں کام کرنے والوں کا ہے۔صوبہ کی ایک ہزار سے زیادہ کانوں میںتقریباً ایک لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد خیبر پختونخواہ کے غریب علاقہ شانگلہ سے تعلق رکھتی ہے۔ ہر برس ان کانوں میں کام کرنے والے ڈیڑھ دو سو کارکن کام کے دوران حادثات میں کئی کارکن جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہو جاتے ہیں کیونکہ لالچی مالکان اور ٹھیکہ دار انہیںمکمل حفاظتی ساز و سامان مہیّا نہیں کرتے۔ انہیں تین سو فٹ گہری کانوں میں کھدائی کرکے کوئلہ نکالنا ہوتا ہے جہاں آکسیجن کی کمی اور میتھین گیس نکلنے کے باعث ان کا دم گھٹ جاتا ہے۔مزید شرمناک بات یہ ہے کہ حادثہ میں مرنے والے مزدور کے ورثا کو صرف دو لاکھ روپے اداکیے جاتے ہیں۔کوئی بیوہ اور یتیم بچوںپر مشتمل خاندان اس قلیل سی رقم میں کیسے گزارا کرسکتا ہے؟اسی طرح ہر سال ملک بھر میںدرجنوں مزدورکارخانوں کے غیرمحفوظ بوائلر پھٹنے سے مر جاتے ہیں۔ محکمہ لیبر کے ملازمین رشوت لیکرسیفٹی قوانین کی خلاف ورزی پر اپنی آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ یہ سلسلہ کئی عشروں سے چلا آرہا ہے۔کسی کا ضمیر نہیں جاگتا۔ موجودہ حکومت تبدیلی اور نیا پاکستان بنانے کے نعرے پر الیکشن جیتی تھی۔ملکی معیشت کی صورتحال ایسی خراب ہے کہ حکومت فوری طور پرشائد محنت کشوں کے مفاد میں نئے قوانین نہ بنا سکے لیکن پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد تو یقینی بناسکتی ہے۔حکومت محکمہ لیبر کو فعال بنا کر اور مالکان (آجروں)کو اعتماد میں لے کر ایسے اقدامات کرے کہ زیادہ سے زیادہ مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی کارڈ مہیا کردیے جائیں‘ان کو مقرر کردہ کم سے کم اجرت ملنے لگے اورکارکنوں کی ای او بی آئی سے بڑھاپے کی پنشن کے لیے رجسٹریشن ہوجائے ۔ موجودہ حالات میں محنت کش کارکنوں کے لیے یہ بھی اچھاخاصا ریلیف ہوگا۔