افسوس کہ ہم انتہاؤں کے درمیان جھول رہے ہیں۔ اسی لئے ہم ہیجان کا شکار ہیں۔ ایک سادہ سی بات ہم کیوں سمجھ نہ سکے کہ قومیں اتفاق رائے میں زندہ رہتی ہیں۔ اتفاق رائے اعتدال کا تقاضا کرتا ہے اور یہ عمرانی معاہدے کی بنیاد پر ہوا کرتا ہے ہم جسے آئین کہتے ہیں۔ کیا ہمارا ایک بھی سیاسی گروہ آئین کا احترام کرتا ہے؟کوئی ایک بھی؟ الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے، دوسری جانب فرقہ واریت نے بھی سر اٹھا لیا ۔سنی علما کونسل کے جید عالم دین کو اسلام آباد کی سرزمین پر شہید کر دیا گیا ۔بلال مسجد لاہور سے شروع ہونے والا سفر اسلام آباد کی سرزمین پر اختتام پذیر ہوا۔اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ اس سے قبل مولانا فضل الرحمن کے قافلے پر فائرنگ کی گئی۔اسی طرح شمالی وزیرستان میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے 6حجاموں کو گولیاں ما رکر قتل کر دیا گیا ۔کراچی دوبارہ سے بد امنی کی لپیٹ میں ہے ۔ان حالات میں 8فروری کوپر امن الیکشن کا انعقاد کسی چیلنج سے کم نہیں ۔ ملک میں افراتفری ،ماردھاڑ ،سیاسی خلفشار اور معاشی مسائل کا ہمالیہ ۔ان حالات میں ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا نا ضروری ہے ۔پہلے صرف بھارت تھا ،اب افغانستان بھی آنکھیں دکھا رہا ۔ آزادی کے فوراً بعد پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا : پاکستان شبنم کا قطرہ ہے، آفتاب کی اولین کرنیں جسے تحلیل کر دیں گی۔ عظیم سیاسی مدبر جانتا تھا کہ پاکستان کو حلیفوں کی ضرورت ہے، جیسے کہ اللہ کے آخری رسول کو فتح مکہ کے ہنگام راستے میں آباد مشرکین مکہ کا تعاون درکار تھا۔ تعاون دوطرفہ ہوتا ہے اور باہمی ضرورتوں سے پھوٹتا ہے۔ تقلید سے نہیں، زندگی غور و فکر، ترجیحات کے تعین میں یکسوئی اور ریاضت سے سنورتی ہے۔ جس سمت میں ہم سب روانہ ہے، اس کا منطقی انجام کیا ہو گا ؟کیا ہم اس راستے پر چل کر اس مافیا سے نجات پا لیں گے ؟اگر نجات پائی تو ہی قوم اعتدال کے راستے پر آئے گی۔ قائدو اقبال کے راستے پر۔ ایف بی آر نے اس بار ملکی تاریخ سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا ہے ۔یقینا یہ بات خوش آئند ہے ۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان حالات میں کوئی بیرورنی سرمایہ کار ملک میں آ سکتا ہے ؟جواب نفی میں ہے کیونکہ جب تک ملک میں امن قائم نہیں ہو گا تب تک بیرونی سرمایہ کاری ایک خواب ہی رہے گی ۔ ملک کا دفاع، ٹیکسوں کی وصولی، تعلیم کا فروغ ۔ مضبوط معیشت اور صحت کی سہولیات، یہ سب کچھ امن و امان سے مشروط ۔ ہر دوسری انفرادی یا اجتماعی کاوش کی طرح اس عمل میں بھی سب سے بنیادی ضرورت خلوص اور آئینی حدود میں رہنا ہے ۔جب ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں راہ کر کام کرے گا تو ہی مسائل حل ہوںگے اور ملک میں امن قائم ہو گا ۔اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ مضبوط جمہوری نظام کے لئے سب سے اول شاید مضبوط جمہوری جماعتوں کی تشکیل درکار ہے۔ اگر پی ٹی آئی ،مسلم لیگ نون ،پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم نے اپنے آپ کو نہ سدھار ا تو یقینی طور پران کی جگہ لینے مذہبی جماعتیں آگے بڑھیں گی ۔سیاسی پارٹیاں قومی امنگوں کی مظہر ہونی چاہییں۔بات بہت سادہ سی ہے مگر ایک سادہ سی بات ہم کیسے قبول کر لیں۔عشروں سے سیاسی جماعتوںاور ان کے رنگا رنگ منشوروںاور انقلاب کے نعروں نے ہم سب کا لہو گرما رکھا ہے۔ ہم اپنے پاؤں زمین پر کیسے رکھیں؟ ہمارے دور کے شاید سب سے زیادہ پڑھے لکھے، نجیب اور معتدل مزاج دانشوروں نے بھی ہمیں وہ راستہ نہیں بتایا جو ہمارا حقیقی راستہ ہونا چاہیے۔ہمارا مسئلہ نظریاتی نہیں بلکہ وہ ہیجان ہے جوانقلاب کے نعروں نے ان گنت ذہنوں میں پیدا کر رکھا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب اور اسلامی انقلاب۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر ایک بحث ان دنوں شدومد سے جاری ہے، مگر ان جماعتوں کے فولادی خول کی وجہ سے جس کی بازگشت باہر سنائی نہیں دیتی۔ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کیا جائے یا نہیں ؟کیونکہ ووٹر اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا ہے ۔ رہی بات دھاندلی تو وہ کتنی ہو سکتی ہے ؟روٹین میں 10سے 15 فیصد ۔آپ 30سے 35 فیصد بھی کر لیں تو بھی ٹرن آئوٹ اس قدر زیادہ ہو گا کہ سارے منصوبے غارت جائیں گے ۔ زمانہ بدل گیا۔ آزاد عدالت ہے، آزاد ذرائع ابلاغ، قانون کی پاسداری کے علمبردار وکلا اور بیدار رائے عامہ۔ کیا انہیں الگ کر کے اچھی حکمرانی ممکن ہے۔ بحث مباحثہ جمہوری سفر کا حصہ ہے۔ دلیل دیجئے طعنہ نہیں۔ سیاست دانوں سے بڑی ہی دردمندی کے ساتھ اپیل ہے کہ اپنا چلن بدلنے کی کوشش کریں۔تقلید سے نہیں زندگی غور و فکر اور ریاضت سے سنورتی ہے، جس سمت میں پاکستان روانہ ہے، اس کا منطقی انجام یہ ہے کہ ایک بار پھر وہ اعتدال کے راستے پر آئے گا۔ محمد علی جناح اور اقبال کی راہ پر۔ ایک ممتاز امریکی ماہر معاشیات کے مطابق جسے 1964ء میں نوبل انعام ملا، پاکستان کیلی فورنیا ایسی ترقی کا اہل ہے۔ ظاہر ہے کہ شرائط ہیں۔ امن، نظام عدل، جمہوری سیاسی جماعتیں، سائنسی تعلیم کا فروغ، ایک کم از کم اتفاق رائے اور دستور کی حکمرانی۔ طعنہ زنی ہر گز نہیں، کبھی ہم نے بھی ادارے تشکیل دیے ۔ہر گز نہیں،ہمیشہ ایک وقتی اور عارضی حکمت عملی ترتیب دی۔ جب تک ہم ادارے تشکیل نہیں دیں گے تب تک مسائل کا حل یقینی نہیں ۔اگر ہم ترقی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اداروں کی تشکیل نو کر کے ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں ۔