اس ہفتے انڈونیشیا کے جزیرے لمباک میں دو بار زلزلہ آیا۔ سو کے قریب لوگ جاں بحق‘ بہت سے زخمی ہوئے۔ نیوز سائٹس پر اس زلزلے کی بہت سی ویڈیو آئی ہیں جن میں سے دو کا تعلق دو مساجد سے ہے۔ ایک میں دکھایا گیا ہے کہ زلزلہ آنے پر مسجد ہلنے لگی۔ جماعت کھڑی تھی‘ کچھ نمازی بھاگ نکلے لیکن امام صاحب اور دوسرے کچھ نمازی بدستور کھڑے رہے۔ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ ان سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا‘ مسلسل دائیں سے بائیں بری طرح جھول رہے تھے لیکن انہوں نماز نہیں چھوڑی۔ یہ عام ہمت کی بات نہیں ہے۔ ڈولتی عمارت میں اس طرح سے کھڑے رہنا بہت دل گردے کی بات ہے۔ جس نے بھی یہ ویڈیو دیکھی‘ عش عش کر اٹھا۔ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟ ایسے موقع پر فرض جان بچانا ہے یا بقیہ نماز پوری ادا کرنا؟ دوسری ویڈیو میں بھی جماعت کا منظر ہے۔ جھٹکے شدید ہوئے تو سب نے نماز توڑ دی اور بھاگتے ہوئے مسجد سے نکل گئے۔ جس لمحے وہ نکلے‘ اسی لمحے چھت کا وہ حصہ زمین پر آ گرا جس کے نیچے نمازی کھڑے تھے۔ وہ نماز نہ توڑتے تو ان میں سے اکثر مارے جاتے۔ بے شک یہ شہادت کی موت ہوتی لیکن شریعت میں اس کی اجازت نہیں۔ یقینی موت کے سامنے یوں آ جانا عزیمت نہیں‘ یہاں رخصت پر عمل کرنا ہی عزیمت ہے۔ ہاں ایسے موقع پر دوسروں کی جان بچاتے ہوئے جان پر کھیل جانا حتی الواقع شہادت ہے۔ ٭٭٭٭٭ انڈونیشیا ہزاروں جزیروں کا ملک ہے جو شرقاً غرباً ہزاروں میل تک چلا گیا ہے۔ لمباک جزیرہ جاوا کے مشرق میں ہے۔ اس کے ساتھ یہ ’’بالی‘‘ نام کا مشہور جزیرہ بھی ہے جس میں قدیم زمانے سے ہندو برادری کی اکثریت ہے۔ یہاں ان کے قدیم مندر اور دوسرے آثار ہیں۔ یہ دونوں جزیرے دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ بالی میں بھی زلزلہ آیا لیکن نقصان نہیں ہوا۔ انڈونیشیا زلزلوں کی سرزمین ہے۔ سارے جزیرے فالٹ لائن پر ہیں۔ جاوا کے مغرب میں ایک جزیرہ کراکاٹوا ہے جہاں 1873ء میں اپنی طرز کا دنیا کا سب سے بڑا زلزلہ آیا تھا۔ یہ زلزلہ آتش فشاں کے پھٹنے سے آیا تھا۔ آتش فشاں ایسی قیامت خیز شدت کے ساتھ پھٹا کہ پورا جزیرہ کئی میل آسمان میں بلند ہوا اور ریزہ ریزہ ہو کر فضائوں میں بکھر گیا۔ اس مٹی اور آتش فشانی دھوئیں کے بادل بحر ہند اور افریقہ کو پار کرتے ہوئے یورپ تک چلے گئے۔ آدھی دنیا میں کئی روز تاریکی چھائی رہی۔ نقشے سے اس جزیرے کا نام غائب ہو گیا۔ خدا کی قدرت کہ کچھ عرصے بعد اسی جگہ پر سمندر سے نیا جزیرہ نکل آیا۔ اس کا نام’’اینک کراکوٹوا‘‘ رکھا گیا یعنی کراکوٹوا کا بچہ۔ نقشے پر خالی جگہ پھر سے پر ہو گئی۔ ٭٭٭٭٭ کراکوٹوا کے ساتھ ہی مغرب میں جزیرہ سماٹرا شروع ہوتا ہے جس کے مغربی کنارے سے پرے سمندر میں عالمی تاریخ کا سب سے بڑا سونامی 2004ء میں آیا۔ یعنی سب سے بڑا زلزلہ بھی انڈونیشیا میں آیا اور سب سے بڑا سونامی بھی۔ اسے محض اتفاق کی بات سمجھئے کہ زلزلے کو تاریخی طور پر سب سے زیادہ پیار مسلمانوں کے ساتھ ہے ۔ جتنے بھی بڑے زلزلے آئے ہیں ان کی اکثریت کا تعلق مسلمان ملکوں یا علاقوں سے ہے۔ انڈونیشیا ہو ‘ فلپائن کا مسلمان صوبہ منڈا ناڈھو‘ پاکستان اور آزاد کشمیر ہو‘ وسط ایشیا کے ملک ہوں‘ ایران یا ترکی ہو‘ کاکیشیا(کوہ قاف) کی مسلمان ریاستیں ہوں‘ الجزائر ہو یا مراکش ہو زیادہ تر بڑے بڑے زلزلے یہیں آئے۔چین میں بھی بہت بڑے بڑے زلزلے آئے لیکن مسلمان علاقوں‘ جیسے کہ سنکیانگ میں آئے۔ اور یہی نہیں سیلاب اور سونامی بھی زیادہ تر عالم اسلام ہی میں آتے رہے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے‘ محض اتفاق ہی سمجھیے۔ تقسیم سے پہلے کانگڑہ‘ (مشرقی پنجاب)میں زلزلہ آیا‘ زیادہ مسلمان ہی مرے۔ مسلمان ملکوں کے بعد سب سے زیادہ زلزلے لاطینی امریکہ میں آتے ہیں۔ خاص طور پر چلی ‘ پیرو‘ اینوے ڈور‘ میکسیکو وغیرہ میں۔ اور یہ بھی اتفاق کہ ان ملکوں کے لوگ شکل و صورت اور بول چال میں مسلمان لگتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سپین میں عربوں کا طویل دور حکومت رہا اور اس دوران ایک مخلوط نسل پیدا ہوئی۔ یہی لوگ پھر سپین سے نو دریافت امریکی براعظموں میں چلے گئے اور ان ممالک کو آباد کیا جنہیں ہم لاطینی امریکہ کہتے ہیں۔لاطینی امریکہ میں ایک ملک برازیل بھی ہے لیکن یہاں ہسپانوی نہیں۔ پرتگالی قوم آباد ہے اور پرتگال ہسپانیہ کا پڑوسی ملک ہے دونوں جزیرہ نما آئے بیریا میں ہیں۔ یورپ میں زلزلے زیادہ تر جنوب کے علاقے ‘ بالخصوص اٹلی میں آتے ہیں ۔ حضرت مسیحؑ کے دور سے ستر اسی سال پہلے اٹلی کے شہر یوپی آئی میں ایک تاریخی زلزلہ آتش فشاں پھٹنے سے آیا تھا۔ یو پی آئی گناہوں کی بستی تھا۔ شہر سدوم سے بھی بڑھ کر جو بحیرہ مردار کے کنارے آباد تھا۔ آتش فشاں پھٹا تو ساری بستی اجتماعی بدکاری میں مصروف تھی۔ خدا کی قدرت دیکھیے‘ سارے لوگ مر گئے لیکن ان کے جسم فنا نہیں ہوئے آتش فشانی راکھ نے انہیں جس حالت میں تھے اسی حالت میں حنوط کر دیا اور آج بھی وہ ’’مجسموں‘‘ کی طرح موجود ہیں۔ ٭٭٭٭٭ زلزلے زمین کے قدرتی عوامل کا بے پردا مظاہرہ ہیں۔ زلزلہ آئے تو مکان ہو یا بستی اگر اس کا استحکام زلزلے کی طاقت سے کمتر ہے تو وہ تباہ ہو جائے گا اور موجود لوگ مر جائیں گے‘ سوائے ان کے کہ جنہیں خدا اپنی خصوصی رحمت‘ حکمت‘ مشیت یا دعا کی قبولیت کی وجہ سے زندہ رکھے۔ اسی موقع کے لیے کہتے ہیں کہ جسے اللہ رکھے۔ اسے کون چکھے۔ زلزلے کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ مرنے والے کون ہیں۔ عابد و زاہد ہیں کہ چور ڈاکو۔ جوان ہیں کہ بچے‘ امیر ہیں کہ غریب۔ کمزور جھگلی میں غریب بیوہ اور اس کے بچے بھلے سے فاقے ہی کاٹ رہے ہوں۔ زلزلہ آئے گا تو جھونپڑی نہیں بچے گی۔ یہی ماجرا سیلاب کا ہے اور یہی وبا کا اور یہی دیگر آفات و بلیات کا۔ ایک خیال ہے کہ یہ سب عذاب الٰہی کی شکلیں ہیں لیکن حدیث رسولؐ بتاتی ہے کہ رحمت للعالمین کی بعثت کے بعد اجتماعی عذابوں کا سلسلہ موقوف ہو گیا۔ ٭٭٭٭٭ امریکہ کے مغربی ساحلی علاقے اور جاپان میں بھی زلزلے آتے ہیں لیکن ان لوگوں نے دولت اور فنی مہارت سے ایسے مکان بنانے کی حرفت سیکھ لی ہے جو زلزلہ آنے پر اپنے ضلعوں سے لچک جاتے ہیں اور زیادہ تر گرتے نہیں ہیں۔ حادثات کی شرح کم ہوتی ہے۔ پھر ان کے ہاں امدادی نظام ایسا تیز رفتار ہے اور علاج کی سہولت ایسی وافر اور اعلیٰ کہ حادثے میں جو لوگ موقع پر مر گئے وہ تو مر گئے‘ زخمی اکثر بچا لیے جاتے ہیں۔ ہمارا ان سے کوئی موازنہ نہیں۔ ہمارے ہاں بم پھٹے تو دس آدمی موقع پر مرتے ہیں۔ پچاس ہسپتال لے جائے جاتے۔ زلزلہ ہو یا دوسری آفات‘ بچائو ریاست کی ذمہ داری ہے اکثر مسلمان ملکوں میں ریاست اکثر سوتیلی ماں بلکہ ڈائن ہوتی ہے۔ پاکستان میں آفات سے بچائو کا کچھ انتظام نہیں‘ عوام کی بہبود اور سلامتی کے لیے بجٹ میں دھیلہ بھی نہیں رکھا جاتا۔ بنگلہ دیش اس معاملے میں‘ ترکی اور سعودی عرب کو چھوڑ کر کمال کی بازی لے گیا ہے۔ وہاں ہر سال سیلاب سے لاکھوں لوگ مرتے تھے۔ شیخ حسینہ والد نے اربوں کھربوں خرچ کر کے ایسے پشتے بنائے اور امدادی نظام کی اس طرح تشکیل کی کہ سائیکلون آنے سے پہلے ہی لاکھوں لوگ ان پشتوں پر پہنچ جاتے ہیں جہاں حکومت کی طرف سے ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ چنانچہ اب بڑے بڑے طوفان سیلاب آنے پر بھی لاکھوں کیا‘ ہزاروں کیا‘ سینکڑوں لوگ بھی نہیں مرتے۔ حسینہ واجد کی بھارت نوازی اور ظالمانہ آمریت ایک طرف‘ اس کی عوامی مقبولیت برقرار رہنے کی ایک وجہ یہ حفاظتی انتظام بھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب وہ اتنا اندھا دھند ظلم کر رہی ہے کہ یہ مقبولیت پگھلنے لگی ہے۔