1299 ء میں قائم ہوئی سلطنت عثمانیہ ’’خلافت عثمانیہ22 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ایک مہتمم بالشان سلطنت تھی۔یہ سلطنت مصر، یونان، بلغاریہ، رومانیہ میسوڈونیا، ہنگری، فلسطین، اردن، لبنان، شام، عرب کے بیشتر علاقوں اور شمالی افریقہ کے بیشتر ساحلی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔لارنس آف عربیہ کے زیرقیادت صلیبیوں کی سازش اورشریف مکہ کی پہل سے اپنوں کی غداری کے باعث یہ سلطنت 1923 ء میں ختم ہوئی یایوں کہہ لیجئے گاخلافت عثمانیہ کاسقوط ہوا۔ 2023ء میں پورے ایک سوسال ہونگے یایوں کہہ لیجئے کہ پوری ایک صدی مکمل ہوگی کہ جب مسلمانوں سے خلافت چھین لی گئی جوآج تک بحال نہ ہوسکی۔ سوال یہ ہے کہ کیاصدراردوان سلطنت عثمانیہ کی بحالی اوراسکی عظمت رفتہ کے لئے کردار ادا کریں گے؟واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کے سکالر سونر کو گاپتے نے دی نیو سلطان کے نام سے اردوان کی سوانح عمری لکھی ہے۔اس سوانح حیات میں انھوں نے لکھا ترک صدر کی خارجہ امور کی حکمت عملی کا ہدف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہونے کے احساس تفاخر کو واپس لائیں۔ وہ سلطنتِ عثمانیہ کی ایک جدید شکل لانا چاہتے ہیں تاکہ ترکی اسلامی عظمت کا قائد بن سکے۔اردوان کی خواہش کے پیچھے ایک طویل ماضی ہے۔ ترکی کا سلطان چار صدیوں سے پوری اسلامی دنیا کا خلیفہ تھا۔ ان کی مذہبی قیادت کو سلطنت عثمانیہ سے باہرکی اسلامی طاقتیں بھی مانتی تھی۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کی مدد سے عرب میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت ہوئی اور خلافت کا نظام ختم ہو گیا۔ جناب اردوان 1994ء میں اسلامی اقدارکی بحالی کے لئے استنبول کے پہلے میئر منتخب ہوئے ۔ اس کے بعد سے اپنے جلسوں میں وہ اکثر ترک قوم پرست مفکر ضیا گوکئی کے اس بیان کو دہراتے تھے کہ مساجد ہماری چھائونیاں ہیں، گنبد ہماری حفاظتی ڈھالیں ہیں، مینار ہماری تلواریں ہیں اور اسلام کے پیروکار ہمارے فوجی ہیں۔ 2016ء میں استنبول میں ایک تقریر کے دوران اردوان نے کہا یہ خواتین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترک آبادی کو فٹ رکھیں۔ ہمیں اپنی اولادوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لوگ آبادی میں کمی اور خاندانی منصوبہ بندی کی بات کرتے ہیں لیکن مسلمان اسے قبول نہیں کر سکتا۔ ہمارے اللہ اور نبی نے یہی کہا اور ہم اس راستے پر چلیں گے۔2003ء میں پہلی مرتبہ ترکی کے وزیراعظم بننے کے بعد اردوان نے نیو یارک ٹائمز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا میں کچھ بھی ہونے سے پہلے مسلمان ہوں اور بحیثیت مسلمان، میں اپنے مذہب پر عمل کرتا ہوں اور یہ میرا فرض ہے اور میں اپنے اس فرض اور ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہوں۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کمال اتاترک نے ترکی سے دین چھینااورلادینیت کی بنیاد ڈالی۔ اتاترک نے اسلامی خلیفوں کو برخاست کیا، دینی عدالتیں ختم کیں اور سکولوں کو سیکولر بنایا۔ عربی رسم الخط کو ترک کر دیا اور ترکی کے لیے رومن رسم الخط کو اپنایا۔ مسلمان خواتین کے حجاب کو ممنوع تھا۔ ترکی کی بیٹیاں باحجاب ہو یونیورسٹی نہیں جا سکتی تھیں اورنہ ہی اس لباس کے باوصف انہیں یونیورسٹیزمیں داخلہ ملتاتھا۔اردوان نے ترکی کوپھرسے اسلام کے باغ وبہارسے عطر بیز کرنے کے لئے اپنے گھرسے شعائردین پرعمل کرنا شروع کیاان کی اہلیہ باحجاب ہیں جبکہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے انڈیانا یونیورسٹی بھیجا کیونکہ وہاں وہ حجاب پہن سکتی تھیں۔آج ترکی کے عوام مدت گزرجانے کے بعد ہی سہی لیکن اپنے اصل کی طرف لوٹ آئے اوراسلام کے شجرسایہ دارکے نیچے آکرسکھ کاسانس لیا۔ صدراردوان کے دوکام بڑے ہی بامعنی ہیں ایک سلطنت عثمانیہ کے قیام پر مبنی یہ ٹی وی سیریز ترکی کے سرکاری ٹی وی ٹی آر ٹی ون پر نشر کی گئی تھی۔ اس کے پانچ سیزن آ چکے ہیں اور کل 448اقساط ہیں۔پہلے سیزن میں اناطولیہ میں صلیبیوں کے خلاف مہم ہے۔ دوسرے میں منگولوں کے خلاف مقابلہ، تیسرے میں مسیحی بازنطینیوں کے خلاف مقابلہ ہے۔ چوتھے سیریز میں سلجوق کی باہمی لڑائی اور پھر عثمانیہ کی تشکیل ہے۔پوری سیریز تاریخی حقائق سے قریب ترہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا میں کہا جاتا ہے کہ ترکی کے قومی مزاج کو اس وقت کے مشہور ٹی وی شو سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ترکی میں ارطغرل کے حوالے سے بھی ثقافتی تحریک دیکھنے میں آئی۔ اہل ترکی نے اس کی بھر پور حمایت کی۔ارطغرل کے حوالے سے اگر آپ تین الفاظ میں بتائیں تو یہ تین لفظ اسلام، گھوڑے کی ٹاپ اور تلوار ہو سکتے ہیں۔ اس ڈرامہ میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ارطغرل اللہ کی راہ پر گامزن ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہونا ہے۔ارطغرل عثمان، سلطنت عثمانیہ کے 45ویں سربراہ اور عبدالحمید دوم کے پوتے تھے، جو 1876 ء سے 1909ء تک سلطنت کے حکمران تھے۔ اگر 1923ء میں سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ نہ ہوتا یا اس کی از سر نو تشکیل ہوتی تو ارطغرل عثمان اس سلطنت کے نئے سلطان ہوتے۔ترکی کے اس ٹی وی ڈرامہ میں عثمانیہ سلطنت کو اسلامی فخر اور کامیابی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ دوئم آیاصوفیہ کو86برس کے بعد پھرسے مسجدمیں بدل کر24جولائی 2020ء جمعہ المبارک کو اس عظیم الشان مسجدمیں جمعہ نمازکی ادا کی گئی جس انہماک کے ساتھ صدراردوان کورونا کے باعث جمعہ کے عوامی شرکت کے اعتبارسے مختصرمگرانتہائی دل آویزمجلس میں شریک رہے اس نے مسلمانان عالم کے جذبات کومہمیزبخشی۔ ایسے وقت میں جب عالم اسلام میں ایسی کوئی چیز نہیں جس پر مسلمان فخر کر سکیں۔ ایک طرف مغربی ممالک کا تسلط بڑھتا گیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو دہشتگردی سے جوڑ دیا گیا اور پوری دنیا میں اسلامو فوبیا مضبوطی سے ابھراتواس کشمکش میں بلاشبہ صدر اردوان نہ صرف اسلامی دنیا کی رہنمائی کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام بہترین مذہب ہے۔