شیخو پورہ سے تعلق رکھنے والے شاعر’’امین گیلانی‘‘ نے کہا تھا: روتے ہیں بہت حادثہ کرب و بلا پر ہو حشر اگر اب بھی بپا‘ ساتھ نہ دیں گے! غزہ میں محبوس فلسطینی مسلمانوں کے بچے قاش بہ قاش کٹ کٹ کر گر رہے ہیں۔ پاک باز عصمتیں خون میں نہائی رزقِ خاک ہوئی جاتی ہیں‘ کہنے کو 57مسلمان ریاستیں ہیں۔ جہاں قبرستان کی سی خاموشی ہے کوئی آہ و بکا کرنے والا بھی نہیں ہے‘ ہاں اگر کہیں معصوموں کی بے بسی پر چیخ و پکار اٹھی‘ سینہ کوبی کی گئی وہ بھی قاتلوں کے خاندانوں کے اندر سے باضمیروں کی آواز تھی۔ امریکہ‘ یورپ ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا کے ہر چھوٹے بڑے شہر قصبے میں لاکھوں لوگ احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلے‘ اسرائیلی حکومت کے خلاف احتجاج ہوئے‘ اپنی حکومتوں اور ان کی پالیسیوں پر تبّرا کیا گیا‘ مسلمان ملکوں میں ترکی کے سوا کہیں بھی قابل ذکر ردعمل دیکھنے میں آیا نہ سننے کو ملا‘ ایران کے سوا ’’حماس‘‘ کے لئے عملی مدد کے لئے کوئی بروئے کار نہیں آیا‘ حتیٰ کہ یہودیوں کے اندر سے اسرائیل کے خلاف آواز بلند ہونے لگی لیکن عربوں کے اندر اگر کوئی تشویش ہے تو اس بات پر کہ حماس نے اسرائیل اور عرب ریاستوں کی شب وصال کے لطف کو بدمزہ کر دیا۔ وہ جو بغل گیر ہونے کو بے قرار تھے‘ ان کی بانہیں اٹھیں اور ہاتھ کھلے رہ گئے اور پاکستان جس کے بانی محمد علی جناح اسرائیل کی ناجائز ریاست کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کو تیار نہیں تھے‘ وہ پاکستان جس نے فلسطینی ریاست کی جدوجہد آزادی میں عرب مسلمانوں سے بڑھ کر سرگرمی دکھائی‘ عرب اسرائیل جنگوں میں عربوں کی خواہش اور ضرورت کے مطابق حصہ لیا‘ ان جنگوں میں پاکستانی ہوا باز ہی تھے‘ جنہوں نے اسرائیل کے جنگی طیاروں کو دھول چٹائی اور ایک بھی پاکستانی ہوا باز اور اس کا طیارہ اسرائیلی فضائی دفاع‘ میزائل یا طیارے کی زد میں نہیں آیا‘ قائد اعظم کے اس پاکستان کی خاموشی ایسی ہے جیسے ہزاروں سال پرانے اجڑے‘ پجڑے آفت زدہ قبرستان کی حالت رہی ہو۔ یارو یہ سناٹا توڑو‘ گیت نہیں تو چیخ سہی یہاں تو کوئی ایک چیخ بلند نہ ہو سکی بلکہ خبر یہ ہے جس کی اب تک کوئی تردید نظر سے نہیں گزری کہ اقوام متحدہ‘ میں جنگ بندی کی قرار داد پر رائے شماری کے وقت پاکستان نے جنگ بندی کے حق میں ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔! وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ حالات بدل رہے ہیں ۔رائے عامہ کا رخ اس کی مہربان نظریں فلسطینیوں کے لئے ہیں‘ بھلے امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی حکمران اسرائیل کی مدد اور حمایت پر کمربستہ ہیں‘ اس کے بھرے‘ پُرے خزانوں میں ڈالر اور پائونڈ ہن بن کر برس رہے ہیں۔ اسلحہ سے اُبلے پڑے اسلحہ خانوں کی انبار میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے کیا اسرائیل اور نیتن یاہو کے پاس اسلحہ اور دولت کی کمی‘ حماس کے حملوں کی وجہ بنی ہے؟ یا حماس کو ٹیکنالوجی میں اسرائیل پر برتری حاصل ہو گئی تھی ؟ کیا حماس نے اپنی سیٹلائٹ فضائوں میں بھیج رکھی ہیں جو دن رات نگرانی اور رہنمائی کرتی ہیں کیا حماس کے پاس موساد‘ سی آئی اے ‘ ایم آئی سکس‘ ایم آئی فائیو‘ فرانس‘ جرمنی‘ آسٹریلیا اور را جیسی خفیہ ایجنسیوں کی مدد اور تعاون حاصل ہے؟افغانستان میں روس کے ساتھ جو ہوا سو ہوا‘ اس کا کریڈٹ لینے کو امریکہ سب سے آگے نکل گیا اس کے بعد امریکہ نیٹو کی مشترکہ افواج‘ پوری دنیا مٹھی بھر طالبان کے خلاف جنگ میں شریک‘20برس‘ طویل مدت تک آنکھ جھپکے بغیر معرکہ جاری رہا‘15اگست 2021ء کو کیا ہوا؟ چند ہزار‘ پھٹے کپڑے‘ ننگے پائوں‘ خالی ہاتھ‘ بھوکے پیٹ مجاہدین نے کرہ ارض کی تقریباً دو سو ریاستوں‘ ان کے ناقابل یقین طاقت ‘ وسائل ‘ اسلحہ خانوں اور سونے چاندی‘ ہیرے جواہرات کے خزانوں اور سات ارب انسانوں کو شکست فاش دی، راتوں رات ہوائی اڈوں کی بتیاں بجھا کر اندھیرے میں بھاگ نکلے۔افغانوں کی حمایت میں کسی ملک میں جلوس نکلا نہ اظہار ہمدردی کیا‘ طالبان فاتح بن کر آزاد افغانستان کی تعمیر نو میں مصروف ہیں۔ اقوام متحدہ میں رجسٹر 190یا چند زائد ریاستوں میں سے کوئی بھی ان کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر کوئی ایورسٹ یا کے ٹو کو پہاڑ ماننے سے انکار کر دے، انکار سے کیا ہوتا ہے‘ جو ہے سو ہے‘یوں تو دنیا میں کروڑوں لوگ اللہ کے وجود سے انکاری ہیں ‘ رہیں انکاری مگر خود انکاریوں کا اپنا وجود بھی اسی کے طفیل ہے۔افغانوں نے پوری دنیا کے وسائل کو شکست دی تھی‘ شکست خوردہ ‘ پٹے ہو لشکروں میں سے کچھ ٹکڑیاں جمع کر کے ‘ حماس کے خلاف لڑنے کو بھیجی ہیں‘ حالات بدل رہے، وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ اب دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہے طالبان کو دونوں گروہوں کی مخاصمت کا سامنا تھا ۔حماس کی حمایت میں دو میں سے ایک گروہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ وہ دو گروہ کون سے ہیں؟ جن کا ذکر کر رہا ہوں ان میں ایک گروہ ملکوں اور ریاستوں کے حکمرانوں کا ہے او دوسرا اور بڑا گروہ رائے عامہ کا ہے بلکہ جمہور کا گروہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ روس‘ چین‘ کوریا‘ کیوبا‘ چلی‘ دوسری متعدد غیر مسلم ریاستوں کے حکمران فلسطینیوں کی سفارتی اور سیاسی حمایت میں اٹھ کھڑے ہیں اور عوام ہیں کہ ہجوم در ہجوم باہر نکل آئے: گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں میرے اب یہاں رازداں اور بھی ہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے وقت پتہ چلتا ہے پکے کافر اور مسلمان ملکوں کے چند منافق ’’نکو بنا دیے جاتے ہیں ۔ امریکہ‘ اسرائیل عالمی رائے عامہ کا اعتماد کھو دینے کے بعد اقوام متحدہ میں بھی تنہا نظر آتے ہیں۔ دور حاضر کی ایک دلچسپ اور حیرت انگیز حقیقت یہ بھی ہے کہ باقاعدہ منظم تربیت یافتہ ہر قسم کے اسلحہ ٹیکنالوجی کی سہولت اور حکومتوں کے نہ ختم ہونے والے وسائل اور اطلاعات سے لیس لشکروں کو‘ مٹھی بھر مجاہدین شکست دینے اور مقابلہ کرنے پر قدرت رکھتے ہیں‘ صدیوں بعد معجزات کا ظہور ہونے لگا ہے۔ اسرائیل کی افواج قاہرہ کے ساتھ یورپ امریکہ کے ہاتھی ’’ابابیلوں‘‘ کے ہاتھوں کچلے ہوئے بھوسے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ہم کتابوں میں پڑھا اور داستانوں میں سنا کرتے تھے کہ مسلمان قرونِ اولیٰ کے مسلمان خصوصاً صحابہ کرام نماز میں اس قدر متوجہ ہوتے کہ جسم میں پیوست تیر کو نکالنے کے لئے اس زمانے میں درد کش ادویات تو دستیاب نہیں تھیں، خانہ خدا میں نماز کی نیت باندھ کر کھڑے ہو جاتے ان کی خدا کے حضور محویت کا یہ عالم کہ عین ان کی محویت میں جسم سے تیر کھینچ کر نکال لیا جاتا اور صاحب صلوٰۃ کو خبر تک نہ ہوتی۔ جو سن رکھا تھا وہ غزہ میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور کیمرے کی آنکھ ساری دنیا کو لائیو دکھا رہی ہے کہ ایک بچہ جو ابھی لڑکپن کی عمر کو بمشکل پہنچ پایا‘ اسرائیلی بموں کے پھٹنے سے زخموں سے چور مگر ہوش و ہواس میں ہسپتال لایا گیا ہسپتال میں درد کش ادویات، ٹیکے ختم ہو چکے ہیں۔ آپریشن کرنا ضروری ہے مگر مریض کو کون سنبھالے کہ آپریشن میں درد کے مارے بھی وہ حرکت نہ کر سکے۔ زخموں سے مجروح الٹا ڈاکٹروں کو تسلی دیتا ہے کہ میں قرآن کی تلاوت شروع کرتا ہوں آپ تلاوت کے دوران آپریشن کر لیں۔ میں قرآنی معجزے سے درد پر قابو پا لوں گا۔ ڈاکٹر آپریشن کر رہے ہیں معصوم بچہ پورے لحن سے تلاوت میں مصروف ہے۔ ہوش و حواس کے ساتھ تلاوت کے دورآپریشن ہو رہا ہے‘ اس کی آواز میں لرزش تک نہیں: فضائے بدر پیدا کر‘ فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی