بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں سپیشل فورسز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بری، بحری اور فضائی افواج کے یہ خصوصی دستے حریت پسندوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کریں گے۔ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ پہلے سے موجود 8لاکھ فوج کشمیریوں کی مزاحمت ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ خصوصی دستوں کی تعیناتی کے بعد خدشہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کو مزید ظالمانہ کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارت نے کشمیر پر قبضے کے ابتدائی ہتھکنڈے سیاسی و سفارتی سطح پر استعمال کیے۔ 1948ء میں وزیر اعظم جواہر لال نہرو کشمیری مجاہدین کی یلغار کی تاب نہ لا کر اقوام متحدہ چلے گئے۔ پنڈت نہرو نے عالمی برادری کے نمائندہ ادارے میں وعدہ کیا کہ مجاہدین اور پاکستان جنگ بندی پر آمادہ ہوں تو وہ کشمیر کا تنازع استصواب رائے سے طے کرنے پر تیار ہیں۔ سلامتی کونسل نے اس وعدے پر یقین کیا اور پاکستان نے جنگ بند کر دی۔ اس جنگ کا بڑا فائدہ کشمیریوں کو یہ ہوا کہ کشمیر کا کافی علاقہ بھارت سے آزاد کرا لیا گیا۔ آزاد کرائے گئے اس علاقے کو آزاد کشمیر کہا جا تا ہے پاکستان نے کشمیر کا مکمل فیصلہ ہونے تک آزاد کشمیر کو داخلی خود مختاری دینے کا فیصلہ کیا۔آزاد کشمیر کی اپنی اسمبلی ہے، صدر اور وزیر اعظم ہیں۔ سپریم کورٹ ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج آزاد کشمیر کی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر ہے جس پر قبضے کے لیے بھارت 72برس تک پنڈت نہرو اور مہاراجہ کشمیر کے مابین طے پانے والے معاہدے کو قانونی دستاویز کے طور پر پیش کرتا رہا۔ اس دستاویز کو اگرچہ پاکستان الحاق کے بنیادی تقاضوں کے خلاف قرار دیتا ہے، تاہم اس میں جو شرائط طے پائیں ان کو بھارتی آئین کی شق 370کی صورت میں محفوظ کر لیا گیا۔ یہ شق بتاتی تھی کہ کشمیر کے باشندوں کو خصوصی آئینی حیثیت حاصل ہے۔ کسی دوسرے علاقے کا شہری کشمیر میں سرکاری ملازمت حاصل کر سکتا ہے نہ وہاں جائیداد خرید سکتا ہے۔ کشمیر پر کوئی فیصلہ کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو پابند کیا گیا کہ وہ ریاستی اسمبلی سے اس پر رائے لے۔ کشمیر میں مرکزی حکومت کے تعینات ہونے والے افسران کے متعلق ریاستی حکومت سے اجازت لی جاتی۔ ان اقدامات کی خلاف ورزی کا سلسلہ اس طرح شروع ہوا کہ بھارت نے آبادی کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لیے لداخ، تبت اور ملحقہ علاقوں سے ہندو پنڈتوں کو وادی کے اس علاقے میں آباد کرنا شروع کر دیا جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ کسی ریفرنڈم کے نتیجے میں مسلمانوں کی پاکستان کے حق میں رائے بدلنے کے لیے حربہ بروئے کار لایا جاتا رہا۔ اس پالیسی کے پہلو بہ پہلو اقوام متحدہ میں استصواب رائے کا معاملہ تاخیر کا شکار کیا گیا۔ بھارت نے کشمیر پر پاکستان کی برتر حیثیت کو کمزور کرنے کے لیے تین جنگیں کیں۔ بھارت نے پاکستان سے منوا لیا کہ دونوں ممالک اپنے تنازعات باہمی مذاکرات سے حل کریں گے۔ رفتہ رفتہ بھارت نے تنازع کشمیر کی قانونی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے کشمیر کو بھی عالمی ثالثی کی بجائے دو طرفہ بات چیت کے دائرے میں شامل کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی پاکستان تنازع کشمیر پر مصالحت کاری کے لیے کسی تیسرے ملک سے مدد کی اپیل کرتا ہے بھارت اسے دو طرفہ معاملہ قرار دے کر راہ فرار اختیار کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر جبر کے ذریعے اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے بھارت نے ابتدا میں پولیس کی تعداد بڑھائی۔ 1993ء میں صورت حال یہ ہو گئی کہ کشمیری مجاہدین نے پولیس ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کی اہم بات یہ ہے کہ کشمیر میں کام کرنے والے پولیس ملازمین نے حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ بھارت نے پولیس کی بغاوت کچلنے کے لیے سری نگر کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں فوجی دستے داخل کر دیئے۔ پولیس اہلکاروں کا مطالبہ تھا کہ ان کے ایک ساتھی اہلکار کی ہلاکت پر سینئر افسر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مقبول بٹ اور افضل گورو کی سزائے موت ناقابل فراموش جرم ہے۔ سرکاری ملازم کشمیری ہی نہیں عام نوجوانوں نے بھی مزاحمت کا راستہ اختیار کر لیا۔ مقبوضہ وادی میں کئی جہادی گروپ قائم ہو گئے۔ بھارت نے اس مزاحمت کو کچلنے کے نام پر کشمیر میں فوج کی تعداد بڑھانا شروع کر دی۔ 5اگست 2019ء سے قبل یہ تعداد 7لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ مودی حکومت نے جب کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں سوا لاکھ مزید فوج تعینات کر دی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یہ کشمیری کے گھر کے سامنے اوسطاً دو فوجی بندوق لیے کھڑے ہیں۔ کشمیری باشندے جان کے خوف سے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ پورے کشمیر میں کرفیو کا سماں ہے۔ دکانیں، سکول اور ہسپتال معمول کے مطابق نہیں کھلتے۔ ایسے کئی واقعات عالمی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہو رہے ہیں کہ کسی مریض کو علاج کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت نہ ملی۔ اجازت ملی بھی تو ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی عدم موجودگی کے باعث مریض کو طبی امداد نہ مل سکی۔ وادی میں سپیشل فورسز کی تعیناتی سے اہل کشمیر پر نئی مصیبتوں کا خدشہ ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان بھارت سے کہہ چکا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ختم کرے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور اہم ممالک بھارت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ساڑھے تین ماہ سے معطل معمولات زندگی بحال کرے۔ ان مطالبات پر بھارت کو کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ بھارت کرفیو ختم کرنے سے قبل مقبوضہ وادی میں سپیشل فورسز کی مدد سے ایسی کارروائیاں کرنے کی تیاری کر رہا ہے جن کے ذریعے کشمیریوں کو پرامن احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے سے روکا جائے۔