طوفانی بارشیں ہوئیں اور لاہور ڈوب گیا۔ جب بھی ایسی بارش ہوتی ہے‘ لاہور ڈوب جایا کرتا ہے ایک بات نئی البتہ یہ ہوئی کہ اس بار پانی بہت دیر سے نکلا اور لاہور والوں نے بہت عرصہ بعد خود کو پانی کے طویل محاصرے میں پایا۔ ہر چند کہ ٹی وی پر ٹکر چلتے رہے کہ واسا حرکت میں آ گیا ہے لیکن شاید یہ حرکت ماورائی قسم کی تھی‘ نظر آئی نہ محسوس ہوئی۔ پانی بہت دیر سے نکلا‘ کئی مقامات پر تو اگلے روز زمین نظر آئی۔ ہاں اس دوران وزیر اعلیٰ اپنی گاڑی پر آبی سیاحت فرماتے ہوئے دیکھے گئے بلکہ دکھائے گئے۔ اہل روحانیت کی حکومت ہے‘ مقامی مرجع روحانیات سے شکوہ کیا کہ اس بار پانی نکالنے پر وہ توجہ نہیں ہے جو ماضی کی حکومت دیا کرتی تھی تو کمال بے نیازی سے فرمایا‘ قومیں بارش کا پانی نکالنے سے ترقی نہیں کرتی۔ شرمندگی ہوئی کہ شکوہ کیوں کیا‘ ساتھ ہی یاد آیا کہ یہی جواب وہ پہلے بھی دے چکے ہیں۔ اہل روحانیات کی سرکار بنتے ہی لاہور میں جا بجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر آنے لگے تھے‘ جیسے کسی ماہ رو کے چہرے پر اچانک چیچک کا حملہ ہو جائے۔ چنانچہ مقامی مرجع روحانیت سے عرض کیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے‘ یہ ڈھیرہٹائے کیوں نہیں جا رہے تو آپ نے یہی ارشاد فرمایا تھا‘ قومیں کوڑے کا ڈھیر ہٹانے سے ترقی نہیں کرتیں۔ قصور اپنا ہی تھا۔ روحانیت کے وفاقی مرجع بار بار فرما چکے کہ قومیں سڑکیں بنانے سے ترقی نہیں کرتیں‘ قومیں پل بنانے سے ترقی نہیں کرتیں‘ قومیں سستی بجلی اور صحت کی سہولیات سے ترقی نہیں کرتیں اور اس منفی لسٹ کی طبائی خاصی بیان کی گئی ہے تو اصولاً کسی بات پر شکوہ کرنا ہی نہیں چاہیے۔ سراپا تسلیم و رضا بن جانا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ ادھر ملک میں ٹیکسوں کا سونامی آیا ہوا ہے کسی نے سابق امریکی صدر ریگن کی ویڈیو اپ لوڈ کر دی ہے جس میں موصوف نے مورخ ابن خلدون کا ایک قول دہرایا ہے۔ یہ کہ قوموں کے وقت زوال میں ٹیکس بڑھ جاتے ہیں‘ آمدن کم ہو جاتی ہے۔ نئے حقائق کی روشنی میں ریگن کو گھامڑی خطاب دیا جا سکتا ہے اور ابن خلدون کو دن کا۔ اس لئے کہہ ہمارے دستاور سے درآمد کردہ معاشی مسیحائوں نے کچھ اور سچ بتایا ہے جن کے آگے ابن خلدون یا کوئی اور کیا بیچتا ہے۔ مصر کو ترقی اور خوشحالی کے بام عروج پر پہنچانے والے گورنر سٹیٹ بنک نے رپورٹ جاری کی ہے اور اس کے آخر میں اس کا خلاصہ بیان فرمایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ہو گا۔ ترقی کی رفتار سست ہو گئی اور مزید ہو گی۔ بیرونی اور مالیاتی شعبے کمزور ہو گئے اور ہوں گے‘ صنعتی شعبے کی کارکردگی متاثر ہوئی اور ہو گی۔ اشیا سازی کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور ماند پڑیں گی۔ جاری اخراجات تیزی سے بڑھ گئے اور تیزی سے بڑھیں گے۔ ترقیاتی اخراجات کم ہو گئے اور کم ہوں گے۔ بچت زائل ہو گئی اور ہو گی۔ مالیاتی خسارہ بڑھ گیا اور بڑھ گیا۔ خلاصہ اس ساری تصویر کا یوں بیان فرمایا کہ’’معیشت استحکام کی طرف گامزن ہے‘‘ ۔ اب بتائیے‘ ابن خلدون یہاں کیابیچے گا۔ بہرحال ایک گھسٹپا لطیفہ یاد آ گیا۔ ڈاکٹر سے مریض کے لواحقین نے حال پوچھا تو بولا گردے فیل ہو گئے ہیں‘ جگر نے خون بنانا بند کر دیا۔ پھیپھڑوں میں ڈبل نمونیہ ہے۔ گلے میں انفیکشن ہے۔ بخار 105درجے کا ہو گیا۔ ریڑھ کی ہڈی کے مہرے میں بال آ گیا‘ دماغ میں جمود ہے۔آنکھوں کی نیلیاں بے حرکت ہو گئی ہیں۔ نبض لاپتہ ہے البتہ مجموعی طور پر مریض کی صحت اور خیریت استحکام کی طرف گامزن ہے۔ اس ڈاکٹر کا نام کیا تھا؟ پتہ نہیں۔کچھ اور ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب نے استحکام کی خوشخبری سنانے کے اگلے روز سود کی شرح ایک فیصد مزید بڑھا کر ساڑھے تیرہ فیصد کر دی۔ گویا ہم استحکام نہیں‘ شدید استحکام کی طرف گامزن ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ٹیکسوں کی بوچھاڑ کرنے والوںکا الہامی فلسفہ ماضی قریب بلکہ ماضی بے حد قریب میں یہ تھا کہ حکمران چورہوں تو ٹیکس لگاتے ہیں بعداز اقتدار ان پر نیا الہام ہوا ہے جو یہ ہے کہ ساری قوم ہی چور ہے۔ اس لئے ٹیکس لگانا پڑ رہے ہیں۔ ساری قوم سے مراد 99فیصد لئے جائیں اس لئے کہ ایک فیصد اشرافیہ کے بارے میں الہامی ارشاد یہ ہے کہ بس یہ ایک فیصد ایماندار ہیں۔ یہی ایک فیصد نیکوکار ہیں۔ اب تک ایک فیصد اشرافیہ کے بارے میں یہ غلط العام خیال تھا کہ یہ چور ہے قوم کا خون چوستی جاتی ہیں۔شکر ہے الہام نے اس غلط العام کی نفی کر دی۔ ٭٭٭٭٭ پیر طریقت نظام الدین سیالوی نے الیکشن میں ’’ایمانداروں‘‘ کا ساتھ دینے پر اپنے مریدوں سے معافی مانگ لی اور فرمایا کہ بہت غلطی ہوئی۔ پیر طریقت سراج الحق عمرہ سے واپسی پر خبر لائے ہیں کہ خانہ کعبہ کے سامنے لوگوں کو رو رو کر معافی مانگتے دیکھا کہ ہم نے ’’ایمانداروں‘‘ کو ووٹ دینے کا گناہ کیا۔ پیر طریقت اور پیر غیر طریقت کم سے کم اس ایک سوچ پر باہم ایک ہو گئے۔ ٭٭٭٭٭