معیشت اس وقت پاکستان کا سب سے بڑااورسنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ دو سوالات بہت اہم ہیں ۔پہلا یہ کہ قرض کب تک لیا جاتا رہے گا اور دوسرا یہ کہ قرض واپس کیسے کیا جائے گا؟ لیکن کیا کبھی آپ نے پارلیمان کے اندر یا باہر کہیں بھی کسی بھی سطح پر اس مسئلے پر کوئی سنجیدہ مکالمہ ہوتے دیکھا ہے؟ آئے روز درجنوں اہل سیاست پریس ٹاک کرتے ہیں اور پریس ریلیزیں جاری کرتے ہیں، ہر روز ان پر جواب آں غزل کہا جاتا ہے،ہر شام ڈیڑھ سو کے قریب ٹاک شوز میں چار سو کے قریب مہمانان گرامی مکالمہ کرنے تشریف لاتے ہیں ، آئے روز سیاسی جماعتوں کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں اور میٹنگز بلائی جاتی ہیں۔کیا کبھی آپ کو معیشت کے حوالے سے کہیں کوئی ٹھوس مکالمہ سننے کو ملا؟ پارلیمان کا کام ہی سنجیدہ قومی معاملات کو زیر بحث لانا اور اس پر قانون سازی کرنا ہے۔ پارلیمان نامی اس معزز فورم پر جہاں ایک دن کے اجلاس پر اس غریب قوم کی رگوں سے چار کروڑ نکال لیے جاتے ہیں ، کبھی آپ نے سنا کہ ملک کے معاشی مسائل اور ان کے حل پر بھی بات ہوئی ہو؟ کبھی ایسا ہوا ہو کہ حکومت نے کوئی معاشی پالیسی دی ہو اور اس پر حزب اختلاف نے ٹھوس فکری اور عملی تنقید کی ہو ۔ سٹیٹ بنک کے حوالے سے ملک میں ایک شور مچا ہے۔ بزم ناز سے جو آتا ہے الگ خبر لے کر آتا ہے۔کچھ سمجھ نہیں آتی کس کا یقین کیا جائے اور کس کا نہ کیا جائے۔عجیب سی پریشانی اور الجھن ہے۔ باقی ساری باتیں تو ایک طرف رکھ دیجیے صرف اس پر غور کر لیجیے کہ کیا اتنابڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اسے پارلیمان میں زیر بحث لایا جاتا تو مناسب نہ ہوتا؟ حزب اختلاف کہاں ہے؟ کیا اس کا کام صرف چند بیانات جاری کر کے نکل جانا ہے یا حکومتی فیصلوں پر نظر رکھنا اور گرفت کرنا اس کا بنیادی فرق ہے۔ کیا ہم جان سکتے ہیں کہ سٹیٹ بنک کے حوالے سے حزب اختلاف کا موقف کیا ہے؟ عمومی سے الزام کی بات نہیں ہو رہی ، سوال یہ ہے اس کے سنجیدہ اعتراضات کیا ہیں؟ کیا حزب اختلاف میں سے کوئی ہے جو ایک دو تین کر کے گنوا سکے؟ یہی سوال حکومت سے بھی ہے۔یہ فیصلہ اگر اس پر ٹھونسا نہیں گیا اور کابینہ اس سے یکسر لاعلم نہیں بلکہ اس کے ہاں یہ معاملہ باقاعدہ زیر بحث آیا ہے اور کابینہ اور وزیر اعظم کو علم ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا تو اس پر کوئی ایک صاحب قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لے رہے کہ ہم نے جو کیا ان وجوہات کی بنیاد پر کیا اور اس میں کچھ غلط نہیں۔ قرض کا پہاڑ چڑھتا جا رہا ہے۔ دفاعی بجٹ پر بہت اعتراض ہوتاہے لیکن اس بات کا کہیں احساس نہیں کہ قرض پر سود اور اقساط کی ادائیگی میں ہم ہر سال دفاعی بجٹ سے زیادہ رقم خرچ کر رہے ہیں۔قرض لے کر قرض واپس کیا جاتا ہے۔ عمران حکومت پر تنقید اپنی جگہ لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ ملکی تاریخ میں اب تک جو قرض لیا جاتا رہا اور جو امداد ملتی رہی وہ کدھر گئی؟ ملک میں کوئی ایک صنعت تو ایسی ہوتی جس کا مال دنیا کو بیچ کر ہم قرض کی ادائیگی میں کچھ مدد لے لیا کرتے؟ کون سا پیداواری منصوبہ ہے ہمارے پاس؟کیا ہمیں کچھ اندازہ ہے کہ اسی طرح معاملات چلتے رہے تو کتنے سالوں بعد آپ کوسارا بجٹ قرض کی ادائیگی میں دینا پڑے گا اور قرض پھر بھی ادا نہیں ہو گا؟ ہمیں قرض دینے والوں نے قرض دیا ہی دو مقاصد کے لیے تھا۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دستاویزات اب ساری کہانی کہہ چکی ہیں۔اکتوبر 1947 میںہم نے امریکہ سے دو ارب ڈالر قرض مانگا تو میر لائق علی خان جو خط لے کر گئے اس میں لکھا تھا: ’’ضرورت ہے مالیات کی بلکہ مالیات کے مستقل سرچشمے کی۔۔۔۔۔پاکستان اگر کسی کی طرف دیکھ سکتا ہے تو وہ امریکہ اور برطانیہ ہی ہیں‘‘۔ یعنی قرض اور امداد ہمارے لیے مالیات کا ’’ مستقل سرچشمہ ‘‘ تھا۔ اسی سرچشمے سے فیض یاب ہوتے ہوتے آج یہ حالت ہو گئی ہے کہ آئینہ ہمارا منہ چڑاتا ہے۔ میر لائق علی خان کی یہ درخواست سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نچلے اہلکاروں نے رد کر دی اور وہ واپس آ گئے۔لیکن دو سال بعد امریکی پالیسی تبدیل ہو گئی۔اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ مک گھی نے بیرونی امداد کے شعبے کے کوآرڈی نیٹر کو خط لکھ کر تنبیہہ کی اور کہا کہ پاکستان کی درخواست پر غور کیا جائے کیونکہ یہ جنوبی ایشیاء میں ہمارے قومی سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ضروری ہے۔یہی بات تین اپریل کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری ہونے والے پالیسی بیان میں لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دی گئی۔ کیا کہا گیا؟ خود پڑھ لیجیے۔ پاکستان سے تعلقات میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ : 1۔اس کی حکومت ا ور لوگوں کا رخ مغرب اور امریکہ کی جانب رہے۔ 2۔پاکستان سیاسی طور پر آزاد رہے لیکن لیکن دفاع اور معیشت کے لیے بیرونی امداد کا محتاج رہے۔ 3۔ پاکستان میں کمیونزم کے علاوہ جاگیرداروں کے رجعت پسند گروہ اور غیر تعلیم یافتہ مذہبی طبقہ بھی ہمارے لیے خطرہ ہیں ۔ یہ طبقہ غالب آ گیا تو پاکستان ایک مذہبی ریاست بن جائے گا۔ 4۔ یہ ہمارا ہدف ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو امن یا جنگ میں جو سہولتیں ، منڈیاں اور ذرائع درکار ہوں وہ پاکستان فراہم کرے۔ یہ تھے وہ اہداف جن کی وجہ سے ہمیں قرض ملنا شروع ہوا۔ اب جب ہم سی پیک میں چین کی طرف جا رہے ہیں تو یہ گویا امریکہ کے اس طے شدہ ہدف کے لیے ایک چیلنج ہے۔ تو کیا ہماری تازہ معاشی پریشانیوں کی ایک وجہ یہ ہے کہ مغرب سی پیک سی ناراض ہے؟