ہم مہنگائی کو عوام کے خلاف، خدانخوانستہ، سازش تو نہیں کہہ سکتے لیکن جس نفاست کے ساتھ اسے بڑھاوا دیا جارہا ہے ، وہ ایک سوچی سمجھی ''حکمت عملی'' کا حصہ ضرورنظر آتا ہے۔ ہم معیشت کے اسرار ورموز بھی نہیں سمجھتے اور نہ ہی حکومت کو مجموعی طور پر نادان سمجھتے ہیں لیکن بہر طور پر اتنا پتہ ضرور ہے کہ ہر طرح کی حکمت عملیاں کچھ مفروضوں پر قائم ہوتی ہیں۔ تازہ مثال سامنے ہے ۔ حکومت توقع کر رہی تھی کہ عالمی منڈی میں آنے والے دنوں میں ایل این جی کی قیمتیں گریں گی اس لیے اس نے اس حوالے سے سستی بولیا ں رد کردیں۔ بالآخر اسے مہنگی ترین بولی قبول کرنا پڑی کہ بر وقت سپلائی نہ ہوئی تو توانائی کا بحران پیدا ہوجائیگا۔ نیت اچھی تھی لیکن کیا کریں مقدر خراب ہوں تو اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھے سوار کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ دوسری مثال ، حکومت کے وہ وعدے تھے کہ گزشتہ حکومتوں کی طرف سے کی گئی کرپشن کے پیسے کو واپس لاکر اسے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرے گی۔ اب تین سال بعد پتہ چلا کہ کرپشن تو بہر حال ہوئی تھی کہ احتساب کا ادارہ مجبور محض پڑا تھا لیکن جن سیاستدانوں کو جیل میں ڈالا گیا ان پر کرپشن کا الزام ایک مفروضہ ثابت ہوا اور ، یوں ، وہ یکے بعد دیگرے جیل سے رہا ہوگئے۔ تحریک انصاف کا تیسرا مفروضہ یہ تھا کہ بجلی اور گیس کے بل اگر بڑھ رہے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکمران چوری کر رہے ہیں۔ اب جنہیں چور کہا جاتا تھا وہ تو کب کے رخصت ہوگئے ہیں لیکن بجلی اور گیس کے بل پہلے کی نسبت نہ صرف بہت سے زیادہ بڑھ گئے ہیں بلکہ ان میں اضافے کی رفتا بھی کم نہیں ہورہی۔ ظاہر ہے اگر موجودہ حکمران چوروں کو ہٹانے اور چوری ختم کرنے کے لیے اقتدار میں آئے تھے ، ان سے تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ خود ان خرافات میں پڑجائیں گے۔ اسکا سیدھا سادھا مطلب ہم یہی لیتے ہیں کہ حکمران چوری نہ پہلے کرتے تھے نہ اب کر رہے ہیں بلکہ ان کا اصل مسئلہ، بلکہ مجبوری ، یہ ہے کہ ان میں چوری روکنے کی سکت نہیں ہے۔ لگے ہاتھوں اس مفروضے کا ذکر بھی بے جا نہیں ہوگا جس کے مطابق کرنسی کو بے قدر کرنے سے برآمدات اور اس کے نتیجے میں بیرونی ادائیگیوںں کا توازن بہتر ہوتا ہے۔ یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہوا ہے کہ صرف اندرونی اور بیرونی قرضہ جات کے حجم میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اور مفروضہ جو اگر چہ موجودہ حکومت کی ایجاد نہیں ہے وہ یہ ہے کہ امیر طبقے پر کم ٹیکس لگائے جائیں تاکہ وہ اپنی بچت، یا پھر منافع کو اپنے کاروبار میں وسعت پر لگائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ معیشت کا پہیہ مزید تیز ہوگا، غریب لوگوں کو روزگار ملے گا اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ بھی ہوگا۔ اسکا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر رکھا جائے کیونکہ پہلے تو یہ بچت نہیں کرتے دوسرے انکی بچت کا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ۔ یہ پالیسی امریکہ میں پہلی جنگ عظیم کے بعد اپنائی گئی تھی اور اسکے نتیجے میں اسے تاریخ کے برے ترین معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ہمارے ہاں ابھی تک یہ پالیسی قائم ہے۔ موجودہ حکومت نہ صرف اس پر عمل پیرا ہے بلکہ اس نے امیر طبقہ کو کھربوں روپے کی رعائتیں بھی دی ہیں۔ مفروضوں کا معاملہ تو سامنے ہے اور ان پر بلا جانے پرکھے یقین کرنے کا نتیجہ بھی کہ مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا ہے اور اس کے سامنے حکومت ڈھیر۔ حقیقت کی بات اور ہے۔ سامنے دیکھ سکتے ہیں اور چاہیں تو ہاتھ لگا کر محسوس بھی کرسکتے ہیں ۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں (بلا تخصیص امیرو غریب پر لاگو) کے علاوہ حکومت کی آمدنی کا دوسرا ذریعہ درآمدی ٹیکس ہیں یعنی اگر اشیائے ضروریہ کی درآمدات کم ہوجائیں تو قومی خزانہ کو نقصان پہنچتا ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ پچھلے تین برسوں میں ملک میں پیسے کی گردش ایک تہائی زیادہ ہوگئی ہے۔ گیا رہ کھرب روپیہ مارکیٹ میں مختلف مد میں دی گئی کیش امداد کی صورت میں پھینکا گیا ہے۔ جن اشیا کی ہمیں ضرورت ہے، یعنی خوردنی تیل، دالیں ، پٹرولیم مصنوعات ، گیس ، انکی اپنے ہاں پیداوار نہیں ہے ، بلکہ دور دراز کی منڈیوں سے منگائی جارہی ہیں۔ ہمارے قرب و جوار میں بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے جس سے ہم خوردنی اشیا منگا سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہمارے معاملات ٹھیک نہیں۔حکومت اربوں روپے امداد کے نام پر پھینک رہی ہے تو طلب کا بڑھنا یقینی ہے لیکن رسد کی صورتحال مخدوش۔ مہنگائی تو ہوگی لیکن حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اس ثابت شدہ مفروضے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ مفروضے حقائق نہیں ہوتے۔ اس مقام تک لانے کے لیے انہیں تحقیق کی بھٹی سے گزنا پڑتا ہے۔ بغیر سیاق و سباق کے ، آنکھیں بند کرکے ، مفروضوں پر یقین کرنے کے نتائج پر کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ جہاں معاملہ سیاست کا ہو تو غلطی کی گنجائش نشتہ!لہذا حکومت سوچے اور غور کرے اور مفروضوں کو بنیاد بنانے کی بجائے حقائق کا سامنا کرے اور عملی اقدامات پر توجہ دے۔