مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے نسیم تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے مرزا نوشہ نے یہ بھی تو کہا تھا کہ ’’خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں‘‘ جب مفسر قرآن اور مبلغ اسلام ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کو پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے قبرستان میں دفنایا جا رہا تھا اور وہاں کئی برگزید لوگ آبدیدہ کھڑے تھے تو میں عجب کیفیت سے دوچار تھا جیسے کہ ’’سورج کے ساتھ ڈوب گیا آفتاب بھی‘‘ میں نے انہیں پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھا تھا‘ ان کی تعلیمات کہاں کہاں پہنچی تھی کتنے ہی نوجوان دلوں کو انہوں نے سیراب کیا اور کتنے ہی ازہان کو انہوں نے جلا بخشی۔ پروفیسر حافظ محمد عبداللہ فرما رہے تھے کہ انہوں نے علم و تدبر اور دلیل سے نوجوانوں کے اشکال و مغالطہ ہائے فکر کو دور کیا۔ وہ دلیل کے آدمی تھے‘ دلیر پر اعتماد اور خوددارمیرے قریب ملک اختر جاوید جو کہ ہمارے دور میں پنجاب یونیورسٹی کے صدر تھے اور مولانا سے عشق کرنے والے مجھے کہنے لگے’’شاہ صاحب‘ میر یاد آ گیا: مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے پھر پروفیسر ڈاکٹر مظہر معین صاحب بتانے لگے کہ مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی جب مدینہ سے پڑھ کر آئے تو وہ مزید تعلیم کے لئے واپس جا رہے تھے اور ان کے لئے بڑا سکوپ تھا مگر وہ دوستوں کے کہنے پر ایک اعلیٰ مقصد کے لئے رک گئے کہ نوجوانوں کی تہذیب و تربیت کو مقدم جانتے تھے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ مساجد کے چیئرمین تھے۔ ہر جمعہ کو وہ جامع مسجدمیں خطبہ دیتے۔ ان کا اسلوب عالمانہ اور ساحرانہ تھا۔ طلباء ہی نہیں ادھر ادھر سے بھی تشنگان علم کشاںکشاں چلے آئے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا جو کہ خود استاد الاساتذہ ہیں فرما رہے تھے کہ وہ مولانا کے بڑے مداح تھے کہ انہیں علامہ اقبال کے کلام سے حیرت ناک حد تک مس تھا۔ وہ انہیں سننے کے لئے آئے۔ میں نے خود ان کی تقریریں سنی ہیں۔ وہ اقبال کو ایسے کوٹ کرتے جیسے وہ اقبال کے حافظ ہوں۔ انہوں نے ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی میں یعنی ہر دو میں گولڈ میڈل حاصل کر رکھا تھا۔ جامعہ اشرفیہ سے وہ فارغ التحصیل تھے۔ ڈاکٹریٹ انہوں نے بشیر احمد صدیقی کے زیر نگرانی کی تھی۔ مدینہ سے بھی ڈگری لے کر آئے تھے۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب وہ جمعہ پڑھا کر اپنے دفتر میں آن بیٹھتے تو کتنے ہی لوگ ان کے اردگرد شمع کے پروانوں کی مانند آتے ۔ علمی باتیں ہوتیں۔ خاص علمی اور تربیتی ماحول نظر آتا۔ ان کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ حق اور سچ کہنے میں کوئی رو رعایت نہیں رکھتے۔ بعض معاملات میں وہ طلبہ کو ڈانٹ بھی دیتے۔ وہ 2000ء میں ریٹائر ہوئے۔ اس سے پیشتر ان کی تفسیر پر مبنی آڈیو ویڈیو کیسٹیں تیار ہو چکی تھیں۔ اس سے بھی پہلے میری زیر نگرانی ان کی کچھ کتب بھی اشاعت پذیر ہو کر پزیرائی حاصل کر چکی تھی جن میں اسماالحسن‘ شعور زندگی‘ شعور بندگی اور ان کی ریڈیائی تقریر میں انداز بیاں اپنا شائع ہو چکی تھیں۔ اس کے بعد ان کے خطبات بھی ان کی شکل میں آئے۔ ان کا سب سے اہم کام ان کی تفسیر دروس القرآن ہے۔ یہ بارہ جلدوں پر مشتمل ہے اور اب یہ تیسری مرتبہ روح القرآن کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ وہ مبلغ اسلام اور مفسر قرآن تو تھے ہی اور انہوں نے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کو فیض یاب کیا مگر وہ شعر کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ شعر کہتے تھے۔ ان کے دور میں ہر سال جو حمد و نعت کی محفل ہوتی تھی اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ احمد ندیم قاسمی‘ مظفر وارثی‘ شہزاد احمد‘ خالد احمد‘ امین گیلانی‘ امجد اسلام امجد ‘ طفیل ہوشیار پوری سے لے کر نجیب احمد اور سلمان گیلانی تک ہر نامور شاعر موجود ہوتا۔ خود احمد ندیم قاسمی نے مجھے کہا کہ شاہ صاحب! میں صدیقی صاحب کی محفل حمدو نعت مس نہیں کر سکتا۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ میرے سگے ماموں تھے اور سب سے پیارے ماموں۔ میں نے ایم اے انہیں کے پاس رہ کر پاس کیا۔ میرے نانا مولانا فضل کریم بھی ان کے پاس تھے اور ان کے بڑے بھائی مفتی عبدالمجید بھی۔ مسکین علی حجازی‘ اسماعیل بھٹی ‘ وارث میر‘ خالد علوی اور افتخار احمد ایسے کتنے جید لوگوں سے میری اسی واسطے سے قربت رہی: اے شب آگہی ستارے چُن بام روشن ہیں ماہتاب کے ساتھ مشہور کتاب’’ہم مسلمان کیوں ہوئے‘‘ کتاب کے مصنف عبدالغنی فاروق ملے تو کہنے لگے’’آج ہمارا ملی اور قومی نقصان ہوا ہے‘‘ اسی قسم کا اظہار ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے کیا۔ لیاقت بلوچ صاحب اور عبدالرحمن شامی بھی آئے کہ وہ مولانا کے ساتھ بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ مولانا کا جنازہ پہلے اعوان ٹائون کی پارک میں ہوا۔ ہر مکتبہ فکر کے لوگ وہاں کثیر تعداد میں موجود تھے۔ مفسر قرآن اور شیخ الحدیث اور مہتمم جامعہ اشرفیہ مولانا عبدالمالک نے روح پرور خطاب کیا۔ نماز جنازہ پڑھائی۔ انہوں نے مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کی خدمات کو سراہا۔ اس سے پیشتر میاں مقصود نے بھی مولانا کے حوالے سے خوبصورت باتیں کیں وہ ہزاروں نوجوانوں کو راہ راست پر ڈال کر گئے۔ مجھے تب ایسا ہی لگا کہ جیسے آفتاب روشنی پھیلاتے ہوئے چپکے سے افق میں اتر جاتا ہے۔ دوسری نماز جنازہ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس ای بلاک کے گرائونڈمیں ہوئی۔ پروفیسر حافظ عبداللہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد نے بھی خطاب کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا کا صدقہ جاریہ وہ نیک اور صالح نوجوان ہیں جن کی انہوں نے تربیت کی۔ وہ خیر کثیر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ مجھے وہ روحانی اور مشکبار محفل بھی یاد آئی۔ یہ تفسیر دروس قرآن کی پزیرائی کے لئے تھی۔ بہت عظیم الشان تقریب، قاضی حسین صاحب نے صدارت فرمائی تھی۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء جمع تھے۔ مولانا منیب الرحمن بھی کراچی سے آئے تھے۔ حافظ محمد عبداللہ‘ حافظ ادریس اور دوسرے صوبوں سے آئے، علماء 12جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر کئی لوگوں نے وہیں خریدی۔ خود قاضی حسین نے 200سیٹ لیے اس تفسیر کو خاص طور پر ان اساتذہ کے لیے نہایت مفید قرار دیا گیا جو قرآن کا درس دیتے ہیں۔ مولانا کے بڑے بھائی مفتی عبدالمجید اسلام آباد یونیورسٹی میں رہے۔ دوسرے بھائی مولانا منور حسین تھے ان کے بیٹے مبشر اقبال صدیقی‘ مشرف اقبال صدیقی‘ محمد طیب صدیقی تو یونیورسٹی کے ناظم رہے اور مظفر اقبال صدیقی سب کے سب خیر اور نیک کی خُو رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ ان کے فرزند باپ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ کچھ لوگ جو مجھے جنازہ میںنظر آئے۔ خواجہ احسان‘ مجیب الرحمن شامی‘ وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد‘ بریگیڈیئر محمد رفیق‘ پروفیسر رشید انگوی‘ ملک شفیق احمد‘ ڈاکٹر محمد ناصر قریشی‘ حاجی مقبول احمد‘ نصراللہ شاہ‘ عبدالجبار مفتی‘ مدثر اقبال‘ مزمل اقبال‘ ثناء اللہ شاہ‘ پروفیسر فرخ محمود‘ طارق چغتائی اور اسلم یزدانی۔ اس دعا کے ساتھ کالم ختم کرتے ہیں: آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے