انسان کا کردار اس بات سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ کس واقعہ پہ خوش ہے اور کیا شے اسے ملول کرتی ہے۔ اس کسوٹی پہ پرکھیں تو تین بار وزیراعظم اور دو بار ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلی کو اعلی عدلیہ سے علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے کی اجازت ملنے پہ ان کے حامیوں اور مخالفوں کی بالترتیب خوشی اور ملال و تاسف ان کے کرداروں کو عیاں کرتا ہے۔بات یہ نہیں کہ ایسا ہونا قانون اور آئین کے تقاضوں کے عین مطابق تھا، بات تو یہ ہے کہ خوشی کس بات پہ منائی جارہی ہے اور تاسف کس بات پہ ہے۔ اگر صرف اسی ایک بیان کا تجزیہ کرلیا جائے تو بہت کچھ عیاں ہوسکتا ہے۔ میاں نواز شریف بیمار ہیں، رنج کی بات ہے۔ وہ اور ان کے برادر صغیر صوبے میں مطلق العنان حکمرانی کے باوجود کوئی ایک اسپتال ایسا نہیں بنا سکے جہاں ان کا علاج ہوسکتا، یہ حقیقت پرملال ہے۔ کیا آپ نے یورپ اور امریکہ کے کسی حکمران کو علاج کی غرض سے دنیا کے کسی بھی اسپتال میں داخل ہوتے، اس مقصد کے لئے اپنے سیاسی ہرکاروں کو دوڑاتے اور میڈیا میں کمپین چلاتے دیکھا ہے؟وہ بھی عین اس وقت جب وہ ملک کی عدالت عظمی سے سزا یافتہ مجرم ہوں؟کیا کسی مجرم کی ضمانت ایک ایسا شخص دینے کے قابل ہے جو خود کئی سنگین مقدمات میں ملوث رہا ہو۔نہ صرف وہ بلکہ اس کا سارا خاندان؟کیا ملکی تاریخ سے میں اس سے قبل کبھی ایسی عدالتی نظیر موجود ہے کہ کسی مجرم کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی ہو اور اس کی ضمانت کسی ملزم نے دی ہو؟ مجرم بھی کسی قتل ڈکیتی یا اغوا برائے تاوان کا نہیں بلکہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے اور اس دوران ملک کے اہم ترین عہدے پہ فائز ہونے اور مشکوک جائدادیں بنانے والا سابق وزیراعظم جو اسی جرم میں نااہل ثابت ہوچکا ہو۔ بات اگر انسانی ہمدردی کی ہے تو ملک میں اس وقت دس ہزار سے زائد قیدی علاج کے منتظر ہیں اور اگر عدالتی نظیر قائم ہو ہی گئی ہے تو ایک عام مجرم کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہونی چاہئے۔ اگر دس ہزار قیدی ملک کے اسپتالوں میں ان بیماریوں کے سبب ناقابل علاج قرار دے کر ملک سے باہر شخصی یا مالی ضمانت پہ ملک سے باہر بھیج دیئے جائیں تو مہذب دنیا ہم سے یہ سوال کرنے پہ حق بجانب ہوگی کہ سرکار، آپ اپنے ملک میں گھاس کھودتے رہے ہیں جو ہم آپ کے مریضوں کا بوجھ ڈھوتے رہیں۔ ایسے میں ایک مجرم کے حامیوں کی لڈیاں اور مٹھائیاں ، جو محض اس بات پہ ہیں کہ وہ اس ملک میں ایک اسپتال نہیں بنا سکا جہاں اس کا علاج ہوسکے ، ملک سے باہر جانے کے لئے قانونی طور پہ اہل ثابت ہوا ہے، کس کھاتے میں جائیں گی؟کیا دریدہ لباس اور ویسا ہی دہن رکھنے والے ان کے ووٹر اس بات پہ خوش ہیں کہ چلو ان کے لیڈر کی جان تو بچی ، ان کا کیا ہے ان ہی عدالتوں کے برامدوں میں کہیں نہ کہیں برسوں میں انہیں بھی انصاف مل ہی جائے گا۔کیا ہوا جو ان کی اپنی مائیں بہنیں اور بیٹیاں انصاف کے لئے ان ہی راہداریوں میں بے آسرا پھرتی اور وکیلوں کے ہتھے چڑھتی رہی ہیں۔کیا ہوا جو ان کے بیٹے باپ اور بھائی انتہائی معمولی جرائم پہ زندگی بھر جیلوں میں سڑتے رہے ہیں اور کیا ہوا جو انہیں علاج کے لئے بکراہت اس حال میں جیلوں کے اسپتالوں میں لایا جاتا تھا کہ ان کے پیروں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوتیں اور ان کے زخموں میں کیڑے پڑ چکے ہوتے تھے۔ ان کے محبوب لیڈر کو،بہرحال ملک کے بہترین طبیبوں کے سترہ رکنی بورڈ کی ہمہ وقت خدمات حاصل تھیں اور اس کے علاج پہ سرکاری خزانے سے اتنے ہی لاکھ خرچ کئے جاچکے تھے۔ کیا یہ مقام مسرت نہیں کہ اب وہ علاج کی غرض سے لندن اور پھر امریکہ کے بہترین اسپتالوں کی طرف عازم سفر ہوگا ۔ پھر وہی فیصلہ کرے گا کہ اسے واپس آنا چاہئے یا ایک آمر کی طرح جو ڈرتا ورتا کسی سے نہیں، وہیں پڑاو ڈال لینا چاہئے۔ اگر وہ واپس آگیا تو یہ ایک اور مقام مسرت ہوگا کہ وہ وعدے کا پکا اور ضمانت کا دھنی نکلا۔یہ اور بات ہے کہ اس کا سابقہ ریکارڈ اس سلسلے میں قابل رشک نہیں ہے۔اس اخلاقیات کو پھر بھی کیا نام دیا جائے گا کہ وہ گیا ہی کیوں۔کیا میرے قبیلے کے لئے جو اس تمام معاملے کو خالصتا انسانی اور اخلاقی نکتہ نظر سے دیکھتا ہے ، اس بات پہ مسرت کا اظہار کرے کہ عمران خان نے مشرف والی غلطی نہیں کی۔اور اس سارے معاملے میں اعلی عدلیہ کو مدخول کرکے اپنے سر سے بلا ٹال لی ہے۔ کیا میں اس بات پہ شاداں و فرحان رہوں کہ میرا لیڈر اس ساری کھکھیڑ سے صاف بچ نکلا ہے ،اب عدلیہ جانے اور مجرم جانے۔ احتساب کا نعرہ ، عامی و حاکم کے لئے ایک انصاف کا غلغلہ اور عام آدمی کے رنج وآلام پہ پھایا رکھنے کے دعوے کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ میں کیا کروں کہ میرے اور میرے دوستوں کے لئے جو ان نعروں پہ ایمان لے آئے تھے اور اسے حرز جاں بنائے بیٹھے تھے، یہ مسرت کا نہیں ملال کا دن ہے۔یہ ملال کہ اس نظام نے جسے اشرافیہ نے مناسب وقت پہ مٹی پانی اور ہوا کے ساتھ ساتھ میرے ہی لہو سے سینچا تھا، بالاخر اسے ہی فائدہ پہنچایا اور دس لاکھ مسکین قیدی منہ دیکھتے رہ گئے۔ یہ ملال کہ احتساب کا نعرہ بالاخر سیاسی مجبوریوں کی نذر ہوا اور ہم جو ایک ایسے پاکستان کاخواب بنے بیٹھے تھے جہاں ملک و قوم کی دولت لوٹنے والوں کو بالاخر حساب دینا ہوگا، ایک دوسرے سے نظریں چرانے پہ مجبور ہیں۔یہ ملال کہ نئے پاکستان میں د ونہیں ایک نظام انصاف ہوگا، اب ایک خواب بن چکا ہے؟اس تمام قصے میں اگر کوئی دانت نکوسے ہم سب کا مذاق اڑاتا نظر آتا ہے تو وہ یہ نظام ہے جس کے سہولت کار اور مستفیض ضمیر کی ہلکی سی خلش کے بغیر بجا طور پہ خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں، تماشہ تو یہ ہے کہ وہ بھی جو اس نظام کے ڈسے ہوئے ہیں محض اس بات پہ خوش ہیں کہ ان کا لیڈر بیرون ملک علاج کے لئے اڑان بھرنے کو تیار ہے۔ عمران خان کے دامن پہ البتہ نہ اعانت مجرمانہ کا داغ ہے نہ اس نظام کے سہولت کار ہونے کا۔ اذیتناک بات یہ ہے کہ اس پیچ در پیچ تار عنکبوت نے ان کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہیں۔اگر وہ زندگی کے کسی بھی مقام پہ اس نظام کے مستفیض نہیں بننا چاہتے تو بلا خوف و خطر انہیں جراتمندانہ اقدامات لینے ہونگے جس کا مناسب ترین وقت یہی ہے ۔باقی انسان کے کردار کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ کس امر پہ مسرور ہے اور کس شے نے اسے ملول کررکھا ہے۔