مقبوضہ کشمیر میں مزید فوجی دستے تعینات کرنے کی اطلاعات پر پاکستان نے بھارت سے غیرقانونی اور جابرانہ اقدامات سے باز رہنے کا کہا ہے۔ دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں بھارت کو انتباہ کیا ہے کہ کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی کوئی نئی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ بیان ان اطلاعات پر جاری کیا گیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے اور علاقوں کو مزید تقسیم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کررہا ہے۔ بھارت کے بارے میں شکوک و شبہات کی وجہ یونین ہوم سنٹر کی مقبوضہ کشمیر میں سرکاری حکام سے طویل مشاورت ہے۔ بھارت کی انتہا پسند حکومت عرصے سے کشمیر کو ہڑپ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ مودی حکومت کا خیال ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر پر اپنا دعویٰ سچ ثابت کرنے کے لیے اسے الگ الگ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ بھارتی حکومت جب کبھی کشمیر پر مذاکرات کی بات کرتی ہے تو اس سے مراد مقبوضہ کشمیر نہیں بلکہ آزادکشمیر ہوتا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہ آزادکشمیر‘ گلگت بلتستان‘ اقصائے چین‘ تبت اور اپنے مقبوضہ کشمیر پر مشتمل علاقے پر دعویٰ منوائے۔ پھر اقوام متحدہ میں بھارت کا ایک تاریخی موقف رہا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کیا۔ عالمی برادری اس بات کی گواہ ہے کہ بھارت نے کشمیر پر بزور قوت قبضہ کیا جس کے جواب میں کشمیری حریت پسندوں اور پاکستان نے مزاحمت کی۔ حریت پسندوں اور پاکستان کا موقف کس قدر درست تھا اس کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر میں امن ہے‘ مقامی آبادی کے سیاسی‘ سماجی و قانونی حقوق محفوظ ہیں۔مقامی آبادی آزادی کے ساتھ کاروبار کرتی ہے‘ کشمیریوں کی اپنی سیاسی و جمہوری نمائندگی ہے۔ اس کے مقابل بھارت کے زیر قبضہ کشمیر ایک بالکل مختلف صورت پیش کرتا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ کشمیر پر عالمی برادری کی سلامتی کونسل سے منظور کی گئی قراردادوں کو غیر موثر کر دیا جائے‘ ایک بڑی تجارتی منڈی کے طور پر اہم ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے بھارت اصرار کرتا ہے کہ وہ کشمیر پر اس کے موقف کی تائید کریں۔ برسوں سے ہر غیر ملکی سربراہ جب بھارت آتا ہے تو اسے دہشت گردی اور ممبئی حملوں کی مذمت کی فرمائش کی جاتی ہے‘ اس سے یہ تاثر ابھارا جاتا ہے کہ دہشت گردی ساری دنیا کے لیے ایک خطرہ ہے اور پاکستان اس کی پشت پناہی کر کے عالمی امن کے لیے خطرات پیدا کر رہا ہے۔ بھارت نے ایف اے ٹی ایف کے رکن کے طور پر کوشش کی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردانہ کردار کا حامل قرار دلا کر اس پر پابندی لگوائی جائے۔ عالمی طاقتوں کی مصلحتیں اوربدلتی بین الاقوامی سیاست نے اسے موقع دیا کہ وہ پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرسکے۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے یکایک مقبوضہ کشمیر میں موجود سات لاکھ فوج میں اضافہ کر کے دو لاکھ مزید فوجی بھیج دیئے۔ بھارت نے اعلان کیا کہ وہ اپنے آئین کی شق 370 کا خاتمہ کررہا ہے‘ اس شق میں مہاراجہ کشمیر اور شیخ عبداللہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ الحاق کی شرائط کو بطور آئینی ضمانت شامل کیا گیا تھا۔ بھارت نے ساتھ ہی جموں کے اس علاقے کو بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کردیا جہاں ہندو آبادی کی اکثریت تھی۔ یوں مقبوضہ کشمیر کے دو حصے کر دیئے گئے۔ اس شق کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی الگ ریاستی اسمبلی اور پرچم ختم کردیئے گئے۔ دو سال ہونے کو ہیں بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ ہر گھر کے دروازے پر مسلح فوجی کھڑے ہیں۔ کشمیریوں کو کاروبار کی آزادی ہے نہ نقل و حرکت کی۔ اس دوران بھارتی افواج ہزاروں سرچ آپریشن کر چکی ہے‘ بے شمار نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا‘ بہت سوں کو دہشت گرد قرار دے کر شہید کردیا گیا‘ کشمیری بچوں کی برین واشنگ کے لیے مراکز قائم کئے گئے۔ گھروں کو نذر آتش کیا جارہا ہے۔ حالات اس نہج پر آ چکے ہیں کہ کشمیریوں کے پاس اپنا موقف پرامن انداز میں پیش کرنے کی آزادی نہیں رہی۔ نومبر 2019ء میں بھارتی حکومت نے ایسے نقشے جاری کئے جن میں جموں و کشمیر‘ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔ پاکستان نے اس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سیاسی نقشے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مکمل خلاف ورزی ہیں اور بھارت کا کوئی اقدام بھی اقوام متحدہ کی جانب سے جموں و کشمیر کی تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ بھارت نے مختلف علاقوں سے ہندو شہری کشمیر میں آباد کرنے شروع کئے۔ ڈومیسائل کا متنازع قانون نافذ کیا۔ اس قانون کی رو سے غیر ریاستی باشندے کشمیر میں جائیداد خرید سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ضابطے کی رو سے کسی متنازع علاقے میں غیرمقامی افراد جائیداد نہیں خرید سکتے۔ بھارت مسلسل ایسے اقدامات کررہا ہے جن سے کشمیر کے باشندوں کی زندگی پریشان ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں بھارتی حکام کی باہمی مشاورت اور پہلے سے موجود بھاری بھرکم فوج کے باوجود نئے دستے تعینات کرنے کی اطلاعات نے خدشات پیدا کردیئے ہیں۔ کشمیری باشندوں اور حریت قیادت کا خیال ہے کہ بھارت اپنے مقبوضہ علاقے کو ہڑپ کرنے کے لیے کوئی نیا دائو کھیلنے کی تیاری کر رہا ہے‘ اس میں کشمیر کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے کی بات بھی ہورہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان عالمی برادری کے سامنے تازہ پیشرفت کے مضمرات رکھے تاکہ کشمیر کے پریشان حال مظلوموں کو نئی مصیبت سے بچایا جا سکے۔