ہو کیا رہا ہے۔ریاست پاکستان کس سمت جا رہی ہے۔طرح طرح کے شکوک پیدا ہوتے ہیں اور میں بار بار اس کا اظہار بھی کئے دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر یہ جو کچھ پنجاب میں ہو رہا ہے کس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔پرویز الٰہی کی مدد ہو رہی ہے یا عمران خاں کو مواقع دیے جا رہے ہیں۔کوئی نہیں جانتا۔ایک ماہ ہونے کو آئے کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بغیر حکمران کے ہے۔معاملات پھر بھی کوئی نہ کوئی چلا رہا ہے۔جو کچھ ہوا‘ ناقابل فہم ہے۔کیا حمزہ شریف کا حلف اٹھانا بھاری پڑ رہا ہے۔جس طرح گورنری چلائی جا رہی ہے اور اس کی پشت پر صدارت بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے بالکل انہونی سی بات لگتی ہے۔عدالتیں بھی دھیرے دھیرے انصاف دے رہی ہیں۔ریاستی ادارے ہمیشہ کسی خاص صورت حال کے تقاضوں کے مطابق کام کرتے ہیں۔غضب خدا کا کہ تادم تحریر مریم نواز کو پاسپورٹ واپس دینے کے لئے ہائیکورٹ کے چار بنچ ٹوٹ چکے ہیں۔حلف وفا داری کا کھلا معاملہ سامنے ہے۔عجیب صورتحال ہے۔گورنر برطرف ہیں‘ پھر بھی ہیں۔یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ تو ہوا ہی نہیں ‘تو یہ پرویز الٰہی کاہے کو الیکشن لڑ رہے تھے۔پرویز الٰہی سپیکر نہیں بھی ہیں اور ہیں بھی۔اسمبلی کے اندر جو غنڈہ گردی ہوئی‘ وہ ایک ایسی داستان ہے جس پر مارشل لاء لگ جایا کرتا ہے۔الیکشن نہ کرانے پر‘ اگر ارادہ مضبوط ہو‘ تو نصف شب کو عدالتیں کھل جایا کرتی ہیں۔تاہم پنجاب کا معاملہ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے سپرد کر دیا۔اور لاہور ہائی کورٹ کو جلدی نہیں ہے۔یہ ساری کہانی ہے کیا۔ اور ساتھ یہ بھی کہ بلاول بھٹو حلف نہیں اٹھا رہے۔وہ لندن کیا لینے گئے تھے۔کیا پنجاب کے معاملے پر یکسوئی نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کا اپنا حصہ چاہیے۔دیکھئے آج عمران خان نے کیا خطرناک بیان دیا ہے۔آرمی چیف کا تقرر موجودہ وزیر اعظم نہیں کرے گا کہ وہ عارضی ہے۔گویا یہ سب بندوبست جاری ہے اور میں آ رہا ہوں۔یہ تقرری میں کروں گا۔ریاست پاکستان کی سالمیت پر یہ آخری حملہ تھا جو ہو چکا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سابق وزیر اعظم نہیں جانتے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔متحدہ عرب امارات پہنچے‘شہزادے کو یا شاید سلمان کو انقلاب پر درس دینے لگے۔20منٹ کی ملاقات کو طویل کرتے گئے۔ذرا سوچیے ان کی بات کیسے سنی گئی ہو گی۔چین گئے تو وہاں وہ توقع کر رہے تھے کہ سی پیک پر بات کرنے آئے ہیں‘وہ منتظر ہی رہے اور یہ ان سے رائے مانگتے رہے کہ چین کا نظام کس طرح پاکستان میں لایا جا سکتا ہے۔انہوں نے صبر سے سنا وگرنہ بناتے کہ اس کے لئے مائوزے تنگ‘ ڈن ژوائو پنگ‘ امری شی ہونے کی ضرورت ہے اور ایک لمبی انقلابی تاریخ درکار ہے۔ٹرمپ سے ملاقات تو ایک ایسا تماشا تھا کہ ہم آج تک اس کے اثر سے نہیں نکلے۔واپس آئے تو یہ مژدہ سنایا کہ دوسرا ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ وہ جو آخری بال تک لڑنے کی بات کر رہے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ انہیں آخری بات تک امید دلائے رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے مگر اس زعم میں وہ بہت آگے نکلے جا رہے ہیں۔ہر ایک اپنا کھیل کھیل رہا ہے۔سیاسی جماعتیں بھی اور غیر سیاسی قوتیں بھی۔عمران خان نے ہر ادارے کے خلاف چھیڑ چھاڑ شروع کر رکھی تھی۔الیکشن کمشن تو خیر براہ راست نشانے پر ہے۔کیونکہ مقدمہ بہت کمزور ہے۔عمران اپنی کمزوری کو بھی اپنی طاقت ظاہر کرنے کا فن جانتے ہیں۔عدلیہ سے چھیڑ چھاڑ ہے کہ میں ایسا کیا کرنے والا تھا کہ آدھی رات کو عدالتیں لگائی گئیں۔یہ دو طرفہ وار تھا۔عمران اس سے نشے میں آ گئے۔یاد ہے نا کہ اس دن کیا کیا افواہیں گردش کر رہی تھیں۔یہ وہ کس کو بتا رہے ہیں کہ نئے آرمی چیف کا تقرر مرے ہاتھ میں ہے۔میرا ساتھ دو۔یہ بہت بڑی سازش ہے۔ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ملک کے اندر دہشت گردی کی وارداتیں شروع ہو چکی ہیں۔بھارت کے مودی کی نظریں آزاد کشمیر پر ہیں۔بلکہ وہ تو گلگت بلتستان پر بھی اپنے عزائم کا اظہار کر چکا ہے۔ایسے میں ملک میں ایسی صورتحال پیدا کرنا کہ فوج کو تقسیم کیا جائے‘ ایک قومی جرم ہے‘ کوئی بعید نہیں کہ مودی آنے والے انتخابات میں آزاد کشمیر سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کرے۔یہ خیالی خدشہ نہیں ہے‘اس کی اطلاعات موجود ہیں۔دنیاوی اطلاعات کے علاوہ اہل اللہ بھی متنبہ کر رہے ہیں۔ ملک کو اس طرح خدشات سے دوچار کرنا بہت خطرناک ہو گا۔اس کے ذمہ دار سب ہیں۔دراصل جو کچھ ہو رہا ہے‘اس کے پیچھے جتنی بھی ذہانت کیوں نہ ہو یہ درست حکمت عملی نہیں ہے۔ملک میں بے یقینی کی کیفیت ایک خطرناک صورت حال ہے جس سے جتنی جلد نکلا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔شہباز شریف کام پر جت گئے ہیں مگر ابھی تک ان کے ہاتھ پلے کچھ زیادہ نہیں ہے۔ان کے صبر کی داد دی جا سکتی ہے مگر ملک کو بے یقینی کی اس کیفیت سے نکلنا ہو گا۔وگرنہ ہم جس طرف چل نکلے ہیں وہاں خطرات اندرونی ہی نہیں بیرونی بھی بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ بہت خطرناک بات ہے۔میں ایک ہی بات کو گھما پھرا کر بیان کر رہا ہوں‘ کیونکہ مجھے ملک کے لئے خطرہ نظر آتا ہے۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے‘مگر جو کم سے کم بات کرنا ہو گی وہ ہو گی یکسر ہونا۔وگرنہ بے یقینی کی یہ کیفیت ہمارے وجود کے لئے بھی خطرہ۔ملک کی سلامتی کے اداروں کو یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔کیونکہ ملک کی سلامتی سب سے بڑا انہی کا مسئلہ ہے۔یہ بے یقینی مزید نہیں چل سکتی‘وگرنہ ملک خطرے میں ہے۔