میدانوں میں بہتے دریا بظاہر سمندر کی طرح پرسکون نظر آتے ہیں لیکن تہہ در تہہ اپنی اگلی منزل کی طرف بہہ رہے ہوتے ہیں۔ کام کی ایسی حکمت عملی ملتانی چال کہلاتی ہے۔ کچھ علما کے نزدیک اسکا مطلب کچھ نہ کرنا لیکن کچھ کرتے نظر آنا ہے لیکن یہ مبالغہ آرائی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کہ کسی کام یا منصبوبے کو سست روی کا شکار کرنا ہو تو اسے ملتانی چال پر لگادیا جاتا ہے۔ منصوبہ اہداف کی طرف بڑھ تو رہا ہوتا ہے لیکن کچھوے کی چال سے۔ ملتانی چال میں جتنی الجھنیں ہیں اور اس چال کی کثیر الجہتی کا واضح ثبوت ہے۔ واضح طور پر یہ انتظامی معاملات سے متعلق ہے۔ مقصد وقت لینا بھی ہے اور وقت دینا بھی۔ چونکہ ملتا ن زمانہ قدیم سے شاد و آباد چلا آتا ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ اس کی دفاعی حکمت عملی بھی ہو۔ فریب دفاعی حکمت عملی کا جزو ہے اور اساتذہ نے اسے جنگ کا نہایت ہی گھاتک ہتھیار کہا ہے۔ طاقتور ہوکر کمزور دکھائی دینا، یا کمزور ہوکر بہادری کے جھنڈے گاڑنا۔ اپنی خوشحالی کی نسبت ملتان بارہا جارحیت کا شکار ہوا ۔ ایسا بھی ہوا کہ اسکی شکست کا اعلان اسے کھنڈر بنا کر بھی کیا لیکن جلد ہی دوبار ہ یہ شہر اپنے قدموں پر کھڑا ہوجا تا۔ لیکن تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ ملتان کو اسکی حاکمیت سے محروم کردیا گیا ہو۔ یعنی صدیوں سے تہذیبی اور تجارتی مرکز ملتان کو کسی دوسرے صوبے یا راجھدانی میں شامل کر دیا گیا ہو۔ ہر سال سکوت ملتان کی برسیاں منائی جاتی ہیں، ماتمی تقریبات ہوتی ہیں۔ ملتان علاقائی سیاست کا گڑھ ہے۔ ملک کے تمام روزنامے یہاں سے نکلتے ہیں، یوں مختلف مفادات کی حامل سیاسی اوور غیرسیاسی تنظیمیں اس شہر میں سر گرمیا ں جاری رکھتی ہیں۔ ساٹھ کی دہائی سے اس شہر میں ایک مستقل موضوع صوبے کا بھی چل رہا ہے جو یقینی طور پر فطری ہے۔ ملتان وفاق کا ایک علیٰحدہ یونٹ ہو اس کی ضرورت اور اہمیت سے انکا ر نہیں لیکن یہ تحریک ابھی تک علمی اور فکری دائروں میں سفر کر رہی ہے۔پچھلے دو عام انتخابات میں نیا صوبہ انتخابی نعرے کی شکل میں بھی سامنے تو آیا ہے۔ لیکن اس صوبے کے نام اور حدود پر سیاسی جماعتوں اور فکری حلقوں میں اختلاف ہے ۔ یوں اس معاملے میں بھی ملتانی چال کار فرما نظر آ رہی ہے کہ ایسا بھی نہیں کہ کوئی کام نہ ہوا ہو ، ہوا ہے اگرچہ پورا نہیں ہوا۔ کیوں نہیں ہوا ، یہ علیٰحدہ سوال ہے۔ نہ صرف شاہ محمود قریشی نے اپنی انتخابی مہم کا بنیادی نقطہ نئے صوبے کے قیام کو بنایا تھا بلکہ جس سرعت سے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا قیام عمل میں آیا تھا ، تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے نئے صوبے کی شرط، عام انتخابات میں کامیابی اور پھر سو دنوں میں صوبہ بننے کا انتظار۔ یہ انتظار انہوں نے بھی کیا تھا جنہوں نے دہائیوں عوام کو خواب دکھلائے تھے کہ بھٹو کی پارٹی جب بھی اقتدار میں آئی نیا صوبہ بنائے گی لیکن بات لٹھ سے ہوتی ہوئی مولہی تک پہنچ گئی تھی، یعنی قومیتی صوبہ نہیں بلکہ انتظامی۔ قوم پرستی کی بوئی اپنی فصل کو پیپلز پارٹی نے کاٹنے کی بجائے کھیت میں گلنے سڑنے اور کیڑے مکوڑوں کی غذا بننے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ سیاست میں فریب کاری چلتی ہے اور اسے چال کے طور پر استعمال کیا جاتے ہے لیکن ایسا بھی کیا کہ اپنی تعمیر کردہ جنت کو اپنے ہاتھوں سے ہی مسمار کردیا جائے۔ لیکن اسے ملتانی چال کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو یوسف رضا گیلانی نے یہ جنت اپنے کارکنان کے خوابوں میں بسادی ہے۔ ایک مخدوم زادے کی فراست کہہ لیں یا پھر وضع داری کہ پیپلز پارٹی سرائیکستان کو تسلیم کرے نہ کرے جنوبی پنجاب کے جیالوں کو گیلانی صاحب نے یقین دلا رکھا ہے کہ جو وہ کہیں گے، وقت آنے پر پیپلز پارٹی کا موقف بھی وہی ہوگا۔ اسکی وجہ اربوں روپے کا ترقیاتی پیکج ہے جو انکی وزارت عظمی کے دور میں ملتان اور اس کے قرب و جوار میں میں صرف ہوا۔وہ اپنے عہدے سے ہٹے لیکن تن تنہا علاقے میں انتخابی مہم چلائی۔ کامیابی اور نا کامی مقدر کی بات ہے لیکن یہ بھی دیکھیں کہ ملتان کی پاکستانی سیاست میں مرکزی اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ گیلانی خاندان نہ سہی قریشی خاندان ملکی سیاست میں کلیدی اہمیت اختیار کر گیا ہے،وہ بھی ایسے کہ روحانیت کا بول بالا ہوگیا ہے۔ فیوض و برکات میں اضافہ ہوا ہے۔ ملکی سیاست ملتانی چال پر لگی نظر آتی ہے۔ ایک طرف پاکستان تحریک جمہوریت جلسے جلوس کرتی ، حکومت گرانے کے نعروں سے ہوتی ہوئی واپس انتخابی راستے پر چلی گئی ہے۔ یعنی پھرتیا ں اپنی جگہ ہو ا کچھ نہیں۔ دوسری طرف بقول وزیر اعظم پچھلے اڑھائی سال انہوں نے نظام حکومت کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں لگادیے ہیں اور بقیہ وقت میں کچھ کردکھانا چارہے ہیں کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ انہوں نے اب تک کچھ نہیں کیا۔ دنیا میں اس وقت پاکستان کا نام ایسے ملکوں کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے جو اقوام متحدہ کے پائدار ترقیاتی اہداف کی نہایت سرعت سے تقلید کر رہے ہیں۔ اسکا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے صحت ، تعلیم اور خوراک کی فراہمی پر حکومت کی توجہ مرکوز ہے۔ دنیا کی نظروں میں افراط زر ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے ، توانائی کا بحران ہے ، سیاسی عدم استحکام کے واضح آثار ہیں لیکن بادی النظر میں ترقی کا ایسا لائحہ عمل کار فرما ہے کہ اقوام متحدہ تک کو کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان نہ صرف ترقی کر رہا ہے بلکہ ایسی جس سے نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلیں بھی فائدہ اٹھائیں گی۔ پائدار ترقی کا راستہ صوبے نہیں یہ ثابت ہوچکا ہے ، مقامی حکومتیں ہیں جو بس آیا ہی چاہتی ہیں۔ سوئی میں دھاگہ ہی ڈالنا رہ گیا ہے۔ باریک کام ہے ، ملتانی چال اس کام کے لیے نہایت موزوں حکمت عملی ہے۔ بقول شاعر: رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھرائیں کیا