کورونا وائرس اور ٹڈی دل کی تباہ کاریوں کیساتھ سیاسی اوراحتسابی جنگ عروج پکڑ رہی ہے۔وہیں کورونا وائرس نے کروڑوں افراد کو خط غربت سے نیچے دھکیلنے کیساتھ بے روزگاری سے بھی دوچارکردیا ہے۔ ہر گزرتے دن کیساتھ عام آدمی کی زندگی بے پناہ مشکلات سے دوچار ہورہی ہے۔کمپنیاں دیوالیہ ہوکر بندش کی جانب سے بڑھ رہی ہیں۔ان مشکل لمحات میں عوام کی نظریں حکومت پر لگی ہیں کہ وزیر اعظم اورانکی ٹیم اپنے وعدوں اوردعوؤں کو عملی جامہ پہنائیں جن کا مقصد ملکی معیشت کی بحالی اورعوام کے دکھوں کا مداوا ہے۔اسی تناظر میں حکومتی ٹیم نے عوام کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم کوکئی تجاویز اور پلان پیش کئے مگر درحقیقت یہ پلان عوام کی تقدیر بدلنے کے بجائے مخصوص افراد اور طبقے کیلئے نوازشات اور مراعات ثابت ہورہے ہیں۔حیران کن طور چند’رنگ باز‘ـ پالیسی سازوں کو مسلسل چکمہ دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے معیشت کی سمت درست کرنے کی کاوش کی تو کاروباری طبقے نے کاروبار دشمن قوانین تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا‘ وقت کے تقاضے بدلنے کیساتھ یقینی طور پر قوانین پرنظرثانی کی ضرورت تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے بورڈ آف انویسٹمنٹ کو ہدایت کی کہ پاکستان میں کاروبار کرنے کیلئے بہت سے رکاوٹیں حائل ہیں جنہیں جلد از جلد دور کیا جائے۔ اس کیلئے لازم تھا کمپنیز ایکٹ 2017 ء میں ترامیم کی جائیں ۔ وزیراعظم کی ہدایت کی آڑ میں تاک لگائے مفاد پرست عناصر نے ایک مرتبہ پھر اپنا کھیل کھیلااورکاروبار کرنے میں آسانی کے نام پرکمپنیز ایکٹ میں آرڈیننس کے ذریعے 121ترامیم کروالیں‘ جن میں کرپشن میں سزایافتہ مجرم کو بھی سہولت فراہم کردی گئی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ان ترامیم کے ذریعے سرکاری کمپنیوں میں وفاقی حکومت کی اکثریت شیئرہولڈنگ ہونے کے باوجود چیف ایگزیکٹو آفیسر کا تعیناتی کا اختیار بھی ختم کردیا گیا ہے۔ حیران کن طور پر یہ سب کچھ وزیراعظم کو ا ندھیرے میں رکھ کر کیا گیا جیسے بھارت سے ادویات درآمد کرنے کیلئے وفاقی کابینہ کی منظوری کے برخلاف ایک تگڑے افسر سے فیصلہ میں خلاف قانون تبدیلی کروائی گئی‘بالآخر وزیراعظم کو نوٹس لے کر انکوائری کا حکم دینا پڑا۔ یہی معاملہ کمپنیز ایکٹ میں ہوا‘ وزیراعظم کو اپنی ٹیم کے ارکان کی غفلت پرایک مرتبہ پھر نوٹس لینا پڑ ا ۔ اعلیٰ سطح اجلاس کی دستاویز میں انکشاف ہواکہ وزیراعظم نے اس اقدام کو شفافیت اور احتسابی عمل کے منافی قراردیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق بورڈ آف انویسٹمنٹ نے صرف 14ترامیم کی سفارش کی تھی، باقی 107ترامیم موقع پرست افسران اور نیب مجرمان کی ساز بازکے نتیجے میں ہوئیں۔ وزیر اعظم نے سیکشن172‘ـ 186‘ 187 اور452کے حوالے سے نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ ترامیم شفافیت اور احتساب کے اخلاقی اقدار کی نفی کرتی ہیں ۔ سیکشن 172کے تحت نیب سے پلی بار گین کرنے والا شخص کمپنی کا ڈائریکٹر بن سکتا ہے جبکہ سیکشن 186‘187میں ترمیم کے تحت پبلک کمپنی میں حکومت کے اکثریتی شیئر ہونے کے باوجود حکومت سے چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔452 کے تحت غیر ملکی کمپنی میں 10فیصد سے کم شیئر ظاہر کرنے پر استثنیٰ دیا گیا ہے۔کمپنیز ایکٹ 2017ء میں ترامیم کا مقصد کاروبار میں آسانی کے حوالے سے اقدامات اٹھانا تھا لیکن اس کی آڑ میںکئی دوسری ترامیم بھی کرا لی گئیں۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے مطابق ترامیم غیر مناسب ہیں لیکن ماہرین کی جانب سے کسی منطق کے تحت ہی ترامیم تیار کی گئی ہوں گی اس لیے ماہرین کو وضاحت کیلئے طلب کیا جائے۔مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی وضاحت نشاندہی کرتی ہے کہ بہت سے ترامیم ایس ای سی پی کی جانب سے تجویز کی گئیں جو وزارت خزانہ کے ماتحت ہے۔وزیراعظم نے ان متنازع ترامیم کو واپس لینے کی ہدایت کردی ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلاامتیاز احتساب پر یقین رکھنے والی حکومت کے عہد میں جن کاریگر افسران نے ذاتی مفادات کے لیے قانون میں ایسی ترامیم کروائیں‘انکے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ معاشی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے ایک اور محاذ پر وزیراعظم کی کاوشوں کو ناکام بنانے کی داستا ن بھی حاضر خدمت ہے۔ امیر قطر نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ قطر کے موقع پاکستانی ائیرپورٹس میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ پلان کے مطابق قطر انویسٹمنٹ کمپنی اسلام آباد‘ـلاہور اور کراچی ائیرپورٹ کے 35سے 40فیصد شیئرز خرید کر ان ائیرپورٹس کا آپریشن بہتر انداز میں چلاناتھا۔ مگر سول ایوی ایشن اتھارٹی کے افسران وزیراعظم کے پلان کی راہ میں رکاوٹ بنے‘جس کے نتیجے میںقطرنے پاکستان کے تین بڑے ائیرپورٹس میں شراکت داری کیلئے سرمایہ کاری کرنے سے معذوری کا اظہار کردیا ہے۔وزیراعظم کو جب یہ بتایا گیا تو ان کے لیے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ امیر قطر پیشکش کرنے کے بعد کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کی جانب سے غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے سنجیدہ کوششں نہ کرنے پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے مشترتجارت رزاق داؤد کی سربراہی میں 6رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔ کمیٹی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی ائیرپورٹس کو آؤٹ سورس کرنے سے متعلق مستقبل کا لائحہ عمل اورسفارشات وزیراعظم کوپیش کرے گی مگر یہ واضح ہوچکاہے کہ قطرکی جانب سے ائیرپورٹس میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ رنگ باز مسلسل دھول جھونکنے میں مگن ہیں‘وزیراعظم کب تک بذریعہ ’نوٹس‘ منجدھار پھنسی کشتی کو کنارے لگانے کی سعی کرتے رہیں گے۔ ہزمیتوں کاسلسلہ صرف رنگ بازوں کے خلاف مؤثر کارروائی سے ہی روکا جاسکتا ہے؟ یا پھر معاملہ یہ تو نہیں: کس لیے اس سے نکلنے کی دعائیں مانگوں مجھ کو معلوم ہے منجدھار سے آگے کیا ہے؟