انتخابات کے لیے جلسے ،جلوس اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں ، جوڑ توڑ بھی ہو رہے ہیں۔ سیاسی اتحاد بن اور ٹوٹ رہے ہیں۔پارٹی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی‘ مقبول ہو یا کم مقبول‘ جو بھی جماعت الیکشن میں جاتی ہے اسے اپنا منشور پیش کرنا ہوتا ہے ۔دنیا بھر کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں سیاسی جماعتوں کا ایک مکمل منشور ہوتا ہے،جس میں بتایا جاتا ہے کہ اقتدار میں آکر وہ یہ کام کریں گے۔عوام کو شعور اور آگہی فراہم کی جاتی ہے کہ کونسی سیاسی جماعت کس شعبے میں کیا اہم تخلیقی کام کرسکتی ہے۔پاکستان میں ایسا رجحان نہیں، یہاں ووٹ چند ہزار روپوں ،سرکاری نوکریوں کے عوض،گلی محلے کے کاموں اور اندھی عقیدت اور نفرت کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں ۔اس لیے 2018میں ہم محض دلفریب نعروں سے متاثر ہوکر تحریک انصاف کو اقتدار میں لے آئے اور پھر سب نے دیکھا کہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بدترین کرپشن کا آغازہوا ،نوکریوں اور ٹرانفسر پوسٹنگ کے ساتھ ساتھ وزارتوں کی بھی خریدوفروخت ہوئی،وطن عزیز معاشی تباہی اورنوجوان نسل اخلاقی انحطاط کا شکار ہوئی ،پی ٹی آئی کی ناکام سفارتی پالیسیوں سے دنیا بھر کے اہم ممالک سے تعلقات خراب ہوئے ،دوست ممالک کو ناراض کیا اورکشمیر کو بھی بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے انتخابی منشور کی اہمیت کوسمجھتے ہوئے سینئر کالم نویس عرفان صدیقی کی سربراہی میں منشور کمیٹی قائم کی جس نے کئی ہفتوں تک دن رات ایک کرکے آخر کار گزشتہ روز منشور کا اعلان کردیا۔سب سے اہم بات معیشت کی بحالی ہے جس پر سوائے مسلم لیگ ن کے کسی پارٹی نے کوئی قابل عمل بات نہیں کی۔ امن و امان کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پرامن حالات ہوں گے تو بیرونی سرمایہ کاری آئے گی ۔یہاں پر بھی ہمیشہ کی طرح مسلم لیگ ن نے امن و سلامتی کو پہلی ترجیح رکھا۔ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن اور تجارت کیلئے رابطوں میں اضافے اور مؤثر سرحدی نظام,مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر آئینی اقدام کی واپسی ،خطے کے امن اور معاشی ترقی کی بنیادوں پر بین الاقوامی تعلقات میں بہتری اور انسداد دہشتگردی کیلئے مل کر کام کرنے کا اعادہ۔مسلم لیگ ن کے منشور کے اہم نکات میں سرکاری دفاتر کو ماحول دوست بنانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ عوام کو ہر روز ان سرکاری دفاتر میں خوار ہونا پڑتا ہے۔ قبل ازیں شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب تمام دفاتر میں اوپن ڈور پالیسی پر سختی سے عمل درآمد کروایا تھا۔پارلیمنٹ کی بالادستی کویقینی بنانا منشور کا اہم نکتہ ہے۔عدالتی اصلاحات کو منشور کا حصہ بنانا مثبت سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ضابطہ فوجداری 1898 اور 1906 میں ترامیم ،آرٹیکل 62 اور 63 کی اصل حالت میں بحالی،عدالتی، قانونی، پنچایت سسٹم اور تنازعات کے تصفیے کا متبادل نظام ،منصفانہ پراسیکیوشن ،بر وقت اور مؤثر عدالتی نظام کا نفاذ ۔چھوٹے مقدمات کا فیصلہ دو ماہ جبکہ بڑے اور مشکل مقدمات کا فیصلہ ایک سال میں سنایا جائے گا۔اوورسیز پاکستانیوں کی جان و مال کے تحفظ کیلئے خصوصی کورٹس،جوڈیشری میں کرپشن کے خاتمے کیلئے عدالتی کارروائی براہ راست نشرکی جائے گی۔برآمدات کو ٹیکسوں سے استثنی، اعلیٰ تعلیم کے لیے بجٹ میں اضافہ،ملک کے 5 بڑے شہروں کو آئی ٹی سٹی بنانے اور آئی ٹی ٹیکنالوجی کی برآمدات کو 5 ارب ڈالر تک لے جانیکا ہدف ۔بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے شمسی توانائی سے 10ہزار میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔ دہشت گردی کیخلاف زیرو ٹالرنس پالیسی بنائی جائے گی،مذہب کی جبری تبدیلی اور غیر مسلم اقلیتوں کیخلاف تشدد کے واقعات سے نمٹنے کیلئے سخت سزائیں دی جائیں گی،اسلام آباد میں میڈیا سٹی کا قیام ،صحافیوں اور میڈیا ورکرز کیلئے ہیلتھ انشورنس ۔ماضی کی انتقامی کارروائیوں کے پس منظر میں نیب کا خاتمہ جبکہ انسداد بدعنوانی کے اداروں اور ایجنسیوں کو مضبوط کیا جائے گا۔اقتصادی شرح نمو 6 فیصد جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 1.5 فیصد ،بیروزگاری و غربت کا خاتمہ اورمہنگائی کی فوری روک تھام، پانچ سال میں ایک کروڑ سے زائد نوکریاں ،افرادی قوت کی سالانہ ترسیلات زر کا ہدف 40 ارب ڈالر، مالیاتی خسارے میں کمی جبکہ فی کس آمدنی 2,000 ڈالر کرنے کا ہدف ۔ معاشی ماہرین سمیت تجزیہ کاروں کی اکژیت نے مسلم لیگ ن کے منشور کو معاشی بہتری اور مستحکم پاکستان کا حل قرار دیا۔ماہرین کا خیال تھا کہ بہترین اور قابل عمل منشورپر نواز شریف ،شہباز شریف ،اسحاق ڈار اور عرفان صدیقی مبارکباد کے مستحق ہیں جنھوں نے مایوسی کا شکار پاکستان کے عوام کو ایک روشن امید دی ہے۔ ایم کیو ایم کے مطابق ان کی پارٹی کے منشور کا مرکزی نکتہ خود مختار مقامی حکومتوں کا قیام ہے۔جماعت اسلامی کے منشور میں عوام سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر اسے حکومت سازی کا موقع ملا تو پاکستان کو اسلامی جمہوری خوشحال اور ترقی یافتہ بنایا جائے گا۔پیپلز پارٹی کے منشور کے اہم نکات جن میں تنخواہوں میں اضافہ، کسان اور نوجوان کارڈ کی فراہمی قابل ذکر ہیں۔مسلم لیگ ن کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے منشور میں کہیں بھی پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کی بات نہیں کی گئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک اور عوام کو درپیش اہم چیلنجز پر خاطر خواہ توجہ اور ترجیح نہیں ہے۔تحریک انصاف،پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹی جماعتیں ’’نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی کے مصداق‘‘بنا سوچے سمجھے عوام کو سبز باغ دکھا کر بیوقوف بنانا چاہتے ہیں۔انتخابی منشور میں جو بھی وعدے کئے جاتے ہیں، اقتدار حاصل کئے بغیر انہیں پورا نہیں کیا جا سکتا۔اب فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ وہ فضول کے نعرے، جملہ بازی، پاگل پن یا کسی عصبیت سے متاثر ہو کر اپنے ووٹ کو برباد کرتے ہیں یا غور و فکر کرکے مسلم لیگ ن کے وعدوں پر یقین کرتے ہیں جو قابل عمل بھی ہیں اور پاکستان کے مسائل کا حل بھی۔