معزز قارئین! آج 4 جنوری ہے ۔ تحریکِ پاکستان کے کارکن ، میرے بزرگ دوست ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ، گجرات (موضع بھدر )کے چودھری غلام حیدر اقبال ؔکی پانچویں برسی ۔ مَیں جب اُنہیں یاد کرتا ہُوں تو، مجھے 1957-1956ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں انگریزی کے پروفیسر ، اپنے اُستاد، سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب / اسلام آباد ملک محمد نواز ( مرحوم) یاد آ جاتے ہیں ۔ ملک صاحب سے میرا مسلسل رابطہ تھا۔ وہ اپنے سرکاری دوستوں سے ،میرا یہ کہہ کر تعارف کراتے تھے کہ ’’ اثر چوہان ! میرے شاگرداں وِچوں بوہت بہادر اے !‘‘۔ چودھری غلام حیدر اقبال ؔ ، ملک صاحب کے ماتحت رہے لیکن، پھر دوست بن گئے ۔ آج مجھے اپنے دوست ، سینئر صحافی جناب ارشاد احمد حقانی بھی یاد آ رہے ہیں، جن کا انتقال 24 جنوری 2010ء کو ہُوا۔ ستمبر1991ء میں وزیراعظم نوازشریف "Senegal" کے داراُلحکومت "Dakar" میں ’’ اسلامی سربراہی کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لئے روانہ ہُوئے تو ، مَیں اُن کی میڈیا ٹیم کا ایک رُکن تھا اور ملک محمد نواز چیف سکیورٹی آفیسر ۔ اسلام آباد سے ’’داکار ‘‘جاتے وقت ہم ،سب ایک رات اور آدھا دن یونان کے داراُلحکومت "Athens"میں ٹھہرے۔ مَیں نے ہوٹل کی لابی میں "P.I.D" کے فوٹو گرافر محمد محسن سے ملک صاحب کے ساتھ اپنی تصویر کھینچنے کے لئے کہا تو ، وزیراعظم صاحب نے میری یہ بات سُن لی اور مجھ سے پوچھا کہ ’’اثر چوہان صاحب! ملک محمد نواز صاحب سے آپ کا کوئی خاص تعلق ہے !‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’جی ہاں! مَیں سرگودھا میں ملک صاحب کا شاگرد رہا ہُوں!‘‘۔ وزیراعظم بولے کہ ’’ ملک محمد نواز میرے بھی محترم بزرگ ہیں ۔پھر وزیراعظم صاحب نے بھی ہمارے ساتھ تصویر کھنچوائی ۔ 26 ستمبر 2009ء کو اسلام آباد میں میری سب سے پیاری بیٹی عاصمہ کا ولیمہ تھا۔ چودھری غلام حیدر اقبال کے چھوٹے بھائی (میرے سمبندھی) چودھری محمد ریاض اختر نے ،ملک محمد نواز صاحب سے میرا تعارف کرایا تو ،ملک صاحب نے مجھ سے جپھی ڈالی اور کہا کہ ’’ چودھری صاحب ! تہانوں نئیں پتہ کہ اثر چوہان میرا بوہت ای پیارا شاگرد اے ، تُسِیں میرا ہور کِیہ تعارف کرائو گے؟ ‘‘۔ تین دِن بعد مجھے ملک صاحب کا ٹیلی فون آیا اور بولے’’اثر چوہان مَیں تیتھوں بوہت شرمندہ ہاں! مَینوں تے کل پتہ چلّیا اے پئی ، چودھری محمد ریاض اختر دے پُتّر معظم ریاض نال تیری دھی دا ویاہ ہورہیا سی !‘‘ ۔ پھر دوسرے دِن ملک صاحب اپنی شرمندگی دُور کرنے کے لئے قیمتی تحائف لے کر ، اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے ۔ میری بیٹی اورداماد پہلے سے وہاں موجود تھے اُنہوں ، نے وہ تحائف وصول کرلئے ۔ پھر ملک صاحب سے میری ملاقاتوں کا سِلسلہ بڑھتا گیا۔ آخری ملاقات اپریل 2012ء میں ہُوئی ۔ اُنہوں نے مجھے کہا کہ ’’ مَیں اپنی کتاب کا مسّودہ تمہیں دکھنا چاہتا ہُوں ‘‘ ۔ مَیں نے کہا کہ ’’ سر ! ۔ مَیں "Checkup" کے لئے جا رہا ہُوں جلد واپس آ کر پڑھوں گا‘‘۔ افسوس کہ ’’مَیں لندن میں تھا اور وہ 8 جون 2012ء کو خالقِ حقیقی سے جا مِلے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ پھر میرے ساتھ دو بار ایسا ہی ہُوا ۔ مَیں ستمبر 2013ء میں لندن میں تھا جب ، لاہور میں ، میری خوش دامن ، بیگم مرزا امیر بیگ کا 6 ستمبر 2013ء کو انتقال ہْوا۔ 1947ء میں سکھوں کی ریاست پٹیالہ ؔمیں اْن کے خاندان کے 15 افراد شہید ہُوئے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ’’پٹیالہ میں تو داڑھی والے سِکھوں نے مسلمانوں کو شہید کِیا تھا لیکن ، اِن داڑھی ؔوالے طالبان کا کیا مذہب ہے جو، مسلمانوں کو شہید کر رہے ہیں ؟‘‘۔ میرے پاس اِس سوال کا جواب نہیں تھا۔ پھر یہ ہُوا کہ ’’ باوا جی ‘‘ کہلانے والا ،میرا درویش صِفت چھوٹا بھائی جاوید اقبال چوہان کا 26 اگست 2008ء کو انتقال ہُوا تو مَیں ،اُس وقت بھی نیویارک میں تھا ۔ باوا جی 2006ء سے میرے پاس ہی رہتا تھا اور مَیں نیویارک جاتے وقت ، اُسے اپنے دو چھوٹے بھائیوں شوکت علی چوہان اور محمد علی چوہان کے سپرد کرگیا تھا جسے ، اُن دونوں نے ، اپنے دوسرے رشتہ داروں کی معاونت سے بڑے بھائی کو لاہور میں سپردِ خاک کردِیا۔ چودھری غلام حیدر اقبالؔ (مرحوم )کا دِینی اور دْنیوی امور پر مطالعہ بہت وسیع تھا، انہیں فارسی، اردو اور پنجابی کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔ جنہیں وہ اپنی گفتگو میں موقع محل کی مناسبت سے استعمال کرتے تھے۔ کلامِ اقبالؒ کے تو موصوف حافظ تھے۔ احباب انہیں ’’عاشقِ اقبال‘‘ کہنے لگے پھر ’’اقبال‘‘ اُن کے نام کا حِصّہ بن گیا۔ چودھری غلام حیدر اقبالؔ کے والد چودھری امام دین تحریکِ پاکستان کے کارکن تھے۔ 23 مارچ 1940ء کو ،لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شریک تھے۔ اُنہوں نے مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کیا۔ چودھری غلام حیدر اقبال کے بڑے بھائی چودھری غلام نبی (مرحوم) کراچی میں محمد علی ٹرام وے کمپنی میں انسپکٹر تھے۔ایک بھائی چودھری محمد اقبال زمیندار تھے ۔ دوسرے چودھری اصغر علی فیاض ریٹائرڈ کرنل اور چودھری محمد ریاض اختر بلڈر ۔تین بیٹے ہیں وقار حیدر کرنل ہیںاور ذوالفقار حیدر اور جواد حیدر ماہرینِ تعلیمات ۔ چودھری غلام حیدر اقبال ؔسے میری گہری دوستی تھی، وہ بہت ہی زندہ دِل اور شفیق انسان تھے۔ مَیں نے اْن سے بہت کچھ سیکھا۔ پاکستان سے محبت اُن کی گھٹی میں پڑی تھی۔ مرحوم کی چار بیٹیاں ہیں ۔ ثمینہ حیدر، شیریں حیدر، لبنیٰ حیدر اور اسماء حیدر۔ اْن کی علمی وراثت میں سب سے زیادہ حِصّہ۔ عزیزہ شیریں حیدر اور اْن کے شوہر (پھوپھی زاد) میجر جنرل مختار احمد نے حاصل کیا۔ میجر جنرل (ر) مختار احمد 1995ء سے 1999ء تک پاکستان ہائی کمیشن برطانیہ میں "Defence Attache" رہے ۔اُنہوں نے برطانیہ کے بہت سے ’’ فرزندانِ پاکستان ‘‘ کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آمادہ کِیا۔ شیریں حیدر کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں ۔ روزنامہ ’’ ایکسپریس‘‘ اسلام آباد میں کالم لِکھتی ہیں اور اسلام آباد کے ایک معیاری تعلیمی ادارے کی ہیڈ مسٹریس ہیں۔ معزز قارئین!۔ "Athens"میں مختصر قیام کے دَوران مجھے جناب ارشاد احمد حقانی (مرحوم )کی رفاقت میں "Acropolis" کی سیر کا موقع ملا اور مغربی فلسفہ کے بانی عظیم فلسفی "Socrates" (سُقراط) پر بار بار تبادلہ خیال کا بھی ۔ ’’عمائدین یونان ‘‘ کے حکم سے سُقراط کو زہر کا پیالہ پینے کی سزا دِی گئی تھی۔ ، سُقراط جیل میں تھے ۔ اُن کے شاگردوں نے ، اُنہیں جیل سے بھگانے کا انتظام کرلِیا تھا لیکن، اُس عظیم اِنسان نے انکار کردِیا اور کہا کہ ’’ مَیں بھاگ کر کہاں جائوں گا؟ کیا دُنیا میں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں موت نہ آتی ہو؟‘‘۔ قارئینِ کرام! مَیں لڑکپن میں ’’کوکلا چھپاکی‘‘ کھیل کھیلتا رہا ۔ آپ نے بھی کھیلا یا ، دیکھا ہوگا کہ ’’ لڑکے ایک دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک لڑکا کوکلا (لمبے کپڑے کا بل دیا ہوا کوڑا) چھْپا کر چاروں طرف دوڑتا ہے اور کسی نہ کسی لڑکے کے پیچھے اُسے چھُپا دیتا ہے اور اگر وہ لڑکا بے خبر ہو تو ، اُسے ’’کوکلا ‘‘ مار کر آئوٹ کردیتا ہے ۔ جب میرا کوئی رشتہ دار دوست یا کسی دوست کا عزیز ، خالق حقیقی سے جا ملتا ہے تو ،مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا’’ موت بھی ہم سب کے ساتھ ’’کوکلا چھپاکی‘‘ کھیلتی ہے؟۔ معزز قارئین!۔ یکم دسمبر سے گلاسگو کے ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی پاکستان میں ہیں ۔ 29 دسمبر کو اُن کے آبائی گائوں موضع ڈُھلّی (تلہ گنگ) میں اُن کی سب سے چھوٹی ہمشیرہ ، محترمہ جہان بیگم زوجہ ملک نعمت خان اعوان بھی موت کے کھیل ’’کوکلا چھپاکی‘‘ کا شکار ہوگئیں۔ جب بھی میری اُن سے بات ہُوئی تو وہ یہی کہا کرتے تھے کہ ’’ اثر چوہان بھائی۔ ’’میرے اباّجی (تحریک پاکستان کے ’’گولڈ میڈلسٹ ‘‘ کارکن ملک حاکم خان ) میری نکی بھین نُوں بوہت پیار کردے سَن۔ ہُن تے ہر وَیلے اباّ جی ہی یاد آئوندے رہندے نیں ‘‘۔ 2 جنوری کو مَیں ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید اور "Wagon" میں سوار کئی نظریاتی ساتھیوں کے ساتھ لاہور میں ’’بابائے امن‘‘کے گھر تعزیت کے لئے گیا تو، وہاں بھی اِسی طرح کی گفتگو تھی۔ پنجابی زبان کے پہلے شاعر بابا فرید شکر گنج ؒ نے کہا ہے کہ… ’’جِند ووہٹی مَرن وَر ،لے جا سی پَرنائِ‘‘ یعنی۔ ’’جان دْلہن ہے اور ملک اُلموت دُلہا اور دُلہا دلہن کو لے جائے گا ‘‘ ۔