وطن عزیز میں مالی بدعنوانی کے حمام میں سب عریاں ہیں۔یُوں لگتا ہے کہ بددیانتی ہمارا لائف اسٹائل بن گئی ہے۔کرپشن تو دنیا کے اور ملکوں میں بھی ہے لیکن پاکستان میں یہ لُوٹ مار کی حد کو پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کے ابتدائی ایام میںرشوت خوری کُل سرکاری فنڈز کے دو تین فیصد کے برابر ہوا کرتی تھی‘ لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں پچیس سے پچاس فیصد سرکاری فنڈز ہڑپ کیے جانے لگے۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہُوا کہ ملکی وسائل بیرون ملک منتقل کردیے گئے۔ ان حالات میںدنیا کے کسی ملک کی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی۔ تحریک انصاف نے کرپشن ختم کرنے کو اپناسیاسی نعرہ بنایا‘ اقتدار میں آئی۔وزیراعظم عمران خان اس برائی کے خلاف جہاد کی باتیں کرتے ہیں۔ نیب بھی کرپٹ افراد کے خلاف متحرک ہے۔اپوزیشن کے بڑے بڑے سیاسی رہنما مالی بددیانتی کے الزام میں گرفتار کیے گئے یا زیر تفتیش ہیں۔ لیکن ہر سرکاری محکمہ میںآج بھی اُسی طرح کرپشن کا دور دورہ ہے جیسے پہلے ہُوا کرتا تھا بلکہ رشوت کے نرخ بڑھ گئے ہیں۔یہ مان بھی لیا جائے کہ موجودہ حکومت کے بڑے عہدیدار بدعنوانی میں ملوث نہیں تب بھی بہتری کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے۔ ایسا کیوں ہے؟ جو لوگ موجودہ حکومت سے پہلے گزشتہ دس برس اقتدار میں رہے‘ ان میں سے اکثرآجکل کرپشن کے الزامات پر نیب کی تفتیش بھگت رہے ہیں لیکن نواز شریف کے سوا جوشخص بھی اب تک پکڑا گیا ہے اسے سزا نہیں ہوئی۔ سزا ملنا تو دُور کی بات ہے اس کے خلاف باقاعدہ ریفرنس یا مقدمہ تک قائم نہیں ہوا۔سیاستدان ہوں یا اعلیٰ افسر ان‘ ان کی کرپشن اور ناجائز دولت کے قصّے زبا ن زد عام ہیں۔ یہ لوگ خواہ لاکھ انکار کریں لیکن عوام جانتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان لوگوں کی دولت میں بے شمار اضافہ ہوا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ کرپشن کاایسا ٹھوس ثبوت پیش کرنا جس سے ہمارا قانونی نظام مطمئن ہوجائے خاصا مشکل بلکہ بعض حالات میں ناممکن کام ہے۔ احتساب کا عمل نتیجہ خیز نہ ہونے کا نقصان یہ ہے کہ لوگوں کا احتساب کے عمل پر اعتماد ختم ہورہا ہے۔ بڑے بڑے سیاستدانوںکے کچھ عرصہ بعد رہا ہوجانے اور بری ہوجانے سے بدعنوانی کومزید فروغ ہوتا ہے‘ لوگ نڈر ہوجاتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف ایک وقتی اُبال ہے جوبیٹھ جائے گا۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ انیس سو نوے کی دہائی میں نواز شریف نے اپنی مخالف بے نظیر بھٹو‘ آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کا احتساب شروع کردیا حالانکہ وہ خود کک بیکس ‘ منی لانڈرنگ میں لتھڑے ہوئے تھے۔‘ خوداُن کا خاندان اربوں روپے کے کوآپریٹو اسکینڈل میں ملوث تھا۔انہوں نے اپنے اقتدار کافائدہ اٹھا کر بنکوں سے اربوں روپے کے قرضے لیے تھے۔لیکن انہوںنے اپنے ذاتی ملازم سیف الرحمن کی سربراہی میںایک احتساب بیورو بنایا جس نے حکومت کے مخالفین کا ناطقہ بند کیے رکھا۔ خود بے نظیربھٹو نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں نواز شریف خاندان کا احتساب کرنے کی کوشش کی ‘ ان کے والد میاں شریف کو گرفتار بھی کیا لیکن سزا دلوانے میںناکام رہیں۔ انیس سو ننانوے میںجنرل پرویز مشرف نے نیب ( قومی احتساب بیورو) بنایا جس نے لیفٹیننٹ جنر ل سید محمد امجد کی سربراہی میں بے لاگ احتساب شروع کیا تو ہر طرف اشرافیہ کی چیخ و پکار شروع ہوگئی‘ جنرل مشرف نے جنرل امجد کو فارغ کیا ‘ انکی جگہ ایسے لوگ مقرر کیے جو صرف حکومت کی ضرورت کے مطابق خاص خاص لوگوں کا احتساب کریں اور جوسیاستدان ‘ بزنس مین حکومت سے تعاون کریں ان کے مقدمے بند کردیں۔ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہوئے قوم سے ایک بڑا وعدہ یہ بھی کیا تھا کہ وہ کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کریں گے لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر انہوں نے سیاستدانوں کے خلاف کرپشن اور دیگر مقدمات ختم کرنے کے لیے این آر او کا قانون جاری کیا۔ پاکستان کا نظام ایسا ہے کہ اس میں بااثر‘ امیرسیاستدانوں‘ اعلی افسروںکا حتساب کرنا بہت دشوار بلکہ ناممکن ہے۔ ان سب کا آپس میں گہرا اتحاد ہے۔ یہ سب ایک دوسرے کا تحفظ کرتے ہیں۔ گواہی اور شواہد چھپادیتے ہیں۔ نیب‘ ایف آئی اے ایسے اداروں میں ایسے قابل افراد کی کمی ہے جو وائٹ کالرجرائم کی ٹھیک طرح سے تفتیش کرسکیں۔ نیب کی نااہلی ہے کہ وہ ثبوت اکٹھے نہیں کرپاتی یا نیب کے افسران کی کرپشن ہے کہ وہ ملزموں سے رشوت لیکر ان کی تفتیش کا عمل سست کردیتے ہیں تاکہ عدالتوں سے ان کی ضمانت ہوجائے۔ بعض صورتوں میں یوں لگتا ہے کہ جان بوجھ کر تفتیش میں نقائص چھوڑ دیے جاتے ہیں تاکہ وکیل صفائی ان کی نشاندہی کرکے عدالتوں سے ملزموں کو بری کروالیں۔ یہ بھی ہے کہ کرپشن کے خلاف قوانین میں ایسا جھول ہے کہ ماہر وکیل قانونی نظام کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔جب تک ان خامیوں پر قابو نہیں پایا جاتا ‘ موثر‘ نتیجہ خیز احتساب ممکن نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ برسراقتدار سیاستدان اور متعلقہ سرکاری افسرکی ملی بھگت اور اشتراک کے بغیر کرپشن ممکن نہیں۔ اسی لیے جب کوئی سیاسی حکومت آتی ہے وہ اپنی مرضی کے بیوروکریٹ چن کر اہم عہدوں پر لگاتی ہے۔ بددیانت اور ہر ناجائز حکم ماننے والوں کو اچھے عہدے دیے جاتے ہیں۔ ایماندار‘ لائق افسران کو کھڈے لائن لگادیا جاتا ہے۔ وہ کوئی ناجائز حکم نہ مانیں تو ان کی بے عزتی کی جاتی ہے‘ ان کا دُور دراز تبادلہ کردیا جاتا ہے۔ جب تک سی ایس پی افسروں کی ملازمت کوآئین کے تحت تحفظ حاصل تھا ملک میں کرپشن کی شرح کم تھی‘ سیاستدانوں اور افسروں کا اشتراک وجود میں نہیں آیا تھا۔ انیس سو ستر کی دہائی میں یہ آئینی تحفظ ختم کردیا گیا تاکہ سرکاری افسر سیاسی آقائوں کے اشاروں پر ناچیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔سرکاری افسران سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں ادارے مضبوط ہوں ‘ ایماندار افسرطاقتور ہوں جو سیاستدان کی غلط بات پرڈٹ کر کھڑے ہوسکیں‘ قانون اور قواعد کی سختی سے پاسداری کریں تو ہمیں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسروں کی ملازمت کو دوبارہ آئینی تحفظ دینا ہوگا۔آڈیٹر جنرل کے محکمہ کو زیادہ با اختیاربنانا ہوگا۔غیرقانونی کام شروع ہوتے ہی اس کو بے نقاب کرنے والے سرکاری افسروں کو تحفظ دینا ہوگا۔صرف بڑے بڑے سیاستدانوں کو پکڑنے سے کرپشن ختم نہیں ہوگی۔ کرپشن کے خاتمہ کے لیے آئین اور قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے۔