پد مانابھن بعد میں فوج کے سربراہ بھی تھے۔ افسر نے فوراً ہی افغانی کو تفتیشی محکمہ کے سپرد کردیا۔ اگلے تین دن تک شدید ترین انٹر وگیشن کے باوجود سجاد افغانی یہی بیان دہراتا رہا۔ افسران کو بھی شاید اب یقین ہو گیا تھا کہ یہ فربہ مولوی ناحق ہی ان کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ مگر رہائی سے قبل اسکا بیک گراونڈ چیک کرنے کیلئے جب اس کو انٹروگیشن کے کمرے میں لایا گیا، تو ان کے بقول ایک گھنٹے کے اندر ہی اس نے پوری کہانی اگل دی۔ تاہم دسمبر 1999ء تک جب بھارتی فضائیہ کے اغواشدہ طیارے اور اسکے مسافروں کے عوض اس کو قندھار لیجاکر رہا کیا گیا، بھارتی حکام نے اظہر کے خلاف عدالت میں دہشت گردی سے متعلق کوئی کیس دائر نہیں کیا۔ بلکہ احتیاطی گرفتاری قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں رکھا۔ حتیٰ کہ پرتگیزی پاسپورٹ رکھنے کے جرم میں بھی کوئی چارہ جوئی نہیں کی۔ 1994ء اور 1995ء میں مسعود اظہر ، سجاد افغانی اور نصراللہ لنگریال کو قید سے آزاد کرانے کیلئے تین اہم آپریشنز کئے گئے۔ اکتوبر 1994ء کو برطانوی نژاد پاکستانی عمر شیخ سعید نے دہلی میں تین برطانوی اور ایک امریکی شہری کو اغوا کرکے ان کی رہائی کی مانگ کی تھی۔ مگر یہ آپریشن بری طرح ناکام ہوا۔ اسی طرح حرکت کے کمانڈر سکندر نے جنوبی کشمیر میںدو برطانوی شہریوںکو اغوا کیا۔ مگر ان کو جلد ہی چھوڑنا پڑا، کیونکہ ان میں سے ایک دہلی میں مقیم برطانوی صحافی کا بیٹا تھا۔ اس طرح 1995ء ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے 6غیر ملکی سیاحوں کو اغوا کیا، جن کا ابھی تک کوئی اتاپتہ نہیں ہے۔ اغو ا کار اظہر اور دو کمانڈروں کی رہائی کی مانگ کر رہے تھے۔ آخر میں دسمبر 1999ء کو انڈین ایئر لائیز کی IC814 اغوا شدہ اڑان کے عوض مسعود اظہر اور عمر شیخ سعید کو رہا ئی ۔ اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے ان کو بذریعہ طیارہ قندھار لے جاکر اغوا کاروں کے حوالے کردیا۔ اس طیارہ کے اغوا کے ایک ماہ قبل ہی سجاد افغانی کا جیل میں گردوں کی خرابی اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔ بھارت حکام کے مطابق وہ جیل سے فرار ہونے کی ایک ناکام کوشش میں مارا گیا۔ مگر عینی شاہدین کے مطابق جیل میں ایک ٹنل کی دریافت کے بعد افغانی کو ایک پنجرے میں بند کرکے پانی سے محروم رکھا گیا اور تین د ن بعدتڑپ کر اس نے جان دی۔ حیرت کی بات ہے کہ ا ن سبھی واقعات کا سلسلہ نصراللہ لنگریال کی گرفتاری سے شروع تو ہوا تھا ، مگر قندھار ہائی جیکنگ میں اس کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ 2011ء میں کوٹ بلوال جیل میں 18سال مکمل کرنے کے بعد اسکو قیدیوں کے تبادلہ کے سلسلہ میں پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلوانے سے مودی شاید انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل تو کرلیں، مگر اس سے کشمیر کی اندرونی صورت حال پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ کشمیر ایک سیاسی پروسیس کا متلاشی ہے۔اِس پروسیس کو کسی اور سیاسی دائرے سے جوڑنانہایت ہی نا مناسب ہے۔ مسعود اظہر کا واقعہ بھی بتاتا ہے کہ کوتاہ مدت کے مقاصد کی آبیاری کیلئے دراز مدت کے اغراض و مقاصد کو قربان کرنا کبھی سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔وزیر اعظم مودی اور بھارتی حکام کو بھی اس حقیقت کا جتنی جلدی ادراک ہوجائے، اچھا ہے۔(ختم شد)